سعودی اتحاد کا حوثیوں کے 17 ڈرونز مار گرانے کا دعویٰ

ریاض (ڈیلی اردو) سعودی عرب اتحاد نے کہا کہ اس نے سعودی عرب کی طرف بھیجے گئے بارود سے بھرے 17 ڈرونز کا سراغ لگا کر انہیں تباہ کردیا ہے۔

ترجمان سعودی فوجی اتحاد کے مطابق حوثیوں نے سعودی عرب کے جنوبی علاقے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔

تاہم اس سے قبل حوثی فوج کے ترجمان کی جانب سے جاری ٹوئٹر بیان میں کہا گیا تھا کہ ایک ڈرون سعودی شہر خمیس مشائت پر فائر کیا گیا۔

عرب میڈیا کے مطابق اتحادی افواج کا کہنا ہے کہ حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی شہر خمیس مشائت پر 2 ڈرون فائر کیے گئے جبکہ 8 ڈرونز سعودی عرب کے جنوبی علاقے کی جانب داغے گئے جن میں سے ایک کا نشانہ شہر نجران تھا تاہم سعودی فضائیہ کی جانب سے ان تمام ڈرونز کو روک لیا گیا۔

دوپہر کے بعد جنوبی علاقے کو ہدف بنانے والے مزید سات ڈرونز کو یمن کی فضا میں ہی تباہ کر دیا گیا۔

بعد ازاں شام کو خمیس مشیط پر دو ڈرونز کے ذریعے دوبارہ حملہ کیا گیا۔

شام کو ایک اور ڈرون کے ذریعے نجران کے علاقے کو ہدف بنایا گیا جبکہ مزید چھ ڈرونز کو آدھی رات کے قریب گرایا گیا۔

عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق علی الصبح بظاہر بے ضرر دکھائی دینے والے ڈرون سے خمیس مشیط کے علاقے کو ہدف بنایا گیا تھا۔

عرب اتحاد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’حوثیوں نے بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی جاری رکھی ہوئی ہے اور وہ سعودی عرب میں شہری اہداف کو نشانہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

یمن کے حوثی باغیوں نے ماضی میں بھی بارہا سعودی عرب پر اس قسم کے حملے کیے ہیں، جس کے جواب میں سعودی افواج نے یمن میں ان کے ٹھکانوں پر زبردست فصائی حملے کیے۔ ان سعودی حملوں میں عورتوں اور بچوں سمتت یمن کے بے شمار عام شہری ہلاک ہوچکے ہیں، جس کے باعث سعودی حکومت پر شدید تنقید ہوتی رہی ہے۔

سعودی حکومت کا الزام ہے کہ حوثی باغیوں کو ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اس ماہ اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ برس سعودی عرب پر یمن سے کیے گئے “چار فضائی حملوں میں استعمال ہونے والے کروز میزائل اور ڈرونز یا تو ایرانی ساختہ تھے، یا پھر ان کے پرزے ایران میں تیار کیے گئے تھے۔”

ایران ان الزامات کی نفی کرتا ہے۔

حوثی ملیشیا نے ستمبر سن دو ہزار چودہ سے یمن کے دارالحکومت صنعا پر اپنا کنٹرول قائم کر رکھا ہے۔ یمن میں خانہ جنگی نے ملکی معيشت کو پہلے ہی تباہ کر رکھا ہے۔ اس انتہائی غریب عرب ملک ميں مہنگائی بہت زیادہ ہے جبکہ غربت اور بھوک کئی گنا بڑھ چکی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں