اویغور مسلمانوں سے متعلق سوال پر عمران خان کا جواب دیکھنا دردناک تھا

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ایک حالیہ انٹرویو کے اشتہاری پرومو میں ان کی جانب سے ’ایبسلوٹلی ناٹ (بالکل نہیں)‘ کے الفاظ مکمل انٹرویو آنے سے پہلے ہی زیر بحث تھے مگر اب یہ انٹرویو اتوار کو نشر کیا جا چکا ہے جس میں ان کے مزید بیانات سامنے آئے ہیں۔

امریکی ٹی وی چینل ایچ بی او پر ’ایکزیوس‘ نامی پروگرام کے لیے صحافی جوناتھن سوان نے ان کا انٹرویو کیا جس میں انھوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’افغانستان میں فوجی کارروائی کرنے کے لیے پاکستان ہرگز امریکہ کو اپنی سرزمین استعمال کرنے نہیں دے گا۔‘

اس انٹرویو میں جہاں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر، چین اور امریکی تعلقات کے پس منظر میں علاقائی اور عالمی صورتحال پر بات چیت ہوئی وہیں عمران خان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ ’فحاشی کے بڑھنے سے معاشرے پر اس کے اثرات‘ کے بیان کے بعد اُن پر ریپ کی متاثرہ خواتین کو ہی اس کا مورد الزام ٹھہرانے کا الزام کیا درست ہے، جس پر عمران خان نے وضاحت پیش کی کہ ’اگر کسی خاتون نے بہت کم کپڑے پہنے ہیں، اس کے مرد پر اثرات تو ہوں گے۔‘

اویغور مسلمانوں سے متعلق سوال پر عمران خان کا جواب تھا کہ ’چین سے ہماری بات چیت ہمیشہ بند دروازے کے پیچھے ہو گی۔‘

انٹرویو میں عمران خان نے کیا کہا؟

جوناتھن سوان نے امریکہ میں کووڈ سے ہونے والی اموات کا موازنہ پاکستان سے کیا اور عمران خان سے پوچھا کہ وہ عالمی وبا سے ہونے والی ممکنہ تباہی کو روکنے میں کیسے کامیاب ہوئے۔

اس پر وزیر اعظم نے بتایا کہ ’میں خدا پر یقین رکھتا ہوں۔ ہم بہت شکر گزار ہیں۔ آپ ایک حد تک اقدامات کر سکتے ہیں اور باقی باتیں آپ کے بس میں نہیں ہوتیں۔‘

’جب ہم نے لوگوں کے ہسپتال داخلے میں اضافہ دیکھا، کووڈ نے یورپ میں بڑی تباہی مچائی تھی۔ سپین اور اٹلی میں ہسپتالوں میں جگہ نہیں بچی تھی۔۔۔ سب سیاستدان کہتے تھے کہ مکمل لاک ڈاؤن لگایا جائے۔ میں پوچھتا تھا کہ ہمارے غریب لوگوں کا کیا ہوگا۔۔۔‘

’آپ بھوکے لوگوں پر لاک ڈاؤن نہیں لگا سکتے۔ ہم نے فوراً لاک ڈاؤن ختم کیا، سمارٹ لاک ڈاؤن لگایا۔‘

عمران خان نے بتایا کہ ملک میں کورونا کی صورتحال کا نگراں ادارہ این سی او سی روزانہ کی بنیاد پر معلومات حاصل کرتا ہے اور ڈاکٹروں کی مشاورت سے صرف کووڈ کے پھیلاؤ والی جگہوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

عمران خان نے اسلاموفوبیا کے خلاف متحد ہونے کے لیے مسلم اکثریتی ممالک کے رہنماؤں کو ایک خط لکھا تھا۔ اس پر وہ کہتے ہیں کہ ’مسلم دنیا اور مغربی معاشروں کے درمیان کمیونیکیشن گیپ (رابطوں میں فقدان) ہے۔ یہ نائن الیون کے بعد ہوا جب اسلامک ٹیرر ازم کی اصطلاح قائم ہوئی۔‘

’جب آپ اسلامک ٹیررازم کہتے ہیں تو عام آدمی سوچتا ہے کہ اسلام میں کچھ ایسا ہے جو لوگوں کو دہشتگردی کی طرف دھکیلتا ہے، یا (وہ سوچتا ہے کہ) انتہا پسندی اسلام کی وجہ سے ہے۔۔۔ دہشتگردی کے واقعات میں کچھ مسلمان ملوث ہوتے تو دنیا میں 1.3 ارب مسلمان اہداف بن جاتے۔‘

عمران خان سے پوچھا گیا کہ سرحد پار مغربی چین میں چینی حکومت نے تعلیمِ نو کے کیمپوں میں 10 لاکھ اویغور مسلمانوں کو قید کر رکھا ہے۔ جوناتھن سوان نے کہا کہ ’چینی حکومت نے مسلمانوں پر تشدد کیا ہے، انھیں زبردستی سٹیرلائز (بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم) کیا ہے، انھوں نے سنکیانگ میں مساجد گِرائی ہیں، مسلمانوں کو روزہ رکھنے، نماز پڑھنے یا اپنے بچوں کو مسلم نام دینے پر سزائیں دی ہیں۔ آپ یورپ اور امریکہ میں اسلاموفوبیا پر اتنی بات کرتے ہیں لیکن مغربی چین میں مسلمانوں کی نسل کشی پر بالکل خاموش کیوں ہیں؟‘

اس کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ ’چینی حکومت سے جو ہماری بات چیت ہوئی ہے اس میں پتا چلا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے، اُن (چین) کے مطابق۔‘

انٹرویور نے بتایا کہ ان الزامات کے بہت زیادہ اور ٹھوس شواہد موجود ہیں جس پر عمران خان نے کہا کہ ’چینی حکومت کے ساتھ ہمارے جو بھی مسائل ہوتے ہیں، ہم ان کے بارے میں بند کمروں کے اندر بات کرتے ہیں۔ ہمارے مشکل وقتوں میں چین ہمارا بہترین دوست ثابت ہوا۔ جب ہماری معیشت مشکلات کا شکار تھی تو چین ہماری مدد کو آیا۔ ہم اس بات کا احترام کرتے ہیں کہ وہ کیسے ہیں اور آپسی مسائل پر بند کمروں کے اندر بات چیت کرتے ہیں۔‘

عمران خان نے سوال کیا کہ ’مغربی دنیا کے لیے یہ اتنا بڑا مسئلہ کیوں ہے؟ کشمیر کے لوگوں کو نظر انداز کیوں کیا جاتا ہے؟‘

’اویغوروں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کے موازنے میں ایک لاکھ کشمیریوں کا قتل کیا گیا ہے۔ (انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں) آٹھ لاکھ انڈین فوجی ہیں۔ یہ واقعی کشمیر کے لیے یہ بڑا قید خانہ ہے۔ یہاں 90 لاکھ کشمیریوں کو رکھا جاتا ہے۔ یہ ایک مسئلہ کیوں نہیں ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ یہ منافقت ہے۔‘

انٹرویور نے سوال پوچھا کہ ’چین آپ کے لیے بڑا پارٹنر ثابت ہوا ہے لیکن کیا کسی سطح پر آپ کو بُرا نہیں لگتا کہ ان کے دیے ہوئے پیسوں کی وجہ سے آپ کو خاموش رہنا پڑتا ہے۔؟‘

عمران خان نے اس کے جواب میں کہا کہ ’میں دنیا پر نظر دوڑاؤں تو پتا چلتا ہے کہ فلسطین، لیبیا، صومالیہ، شام، افغانستان میں کیا ہو رہا ہے۔ کیا میں ہر چیز پر بات کرنا شروع کر دوں؟ میں اس پر توجہ دوں گا کہ میرے ملک کی سرحدوں کے اندر کیا ہو رہا ہے۔‘

اس پر انٹرویور نے کہا کہ ’یہ بھی تو آپ کی سرحد پر ہی ہو رہا ہے۔‘

وزیر اعظم نے کہا کہ ’کشمیر پاکستان کا حصہ ہے، یہاں ایک لاکھ لوگ مر رہے ہیں۔ مجھے اس کی زیادہ فکر ہے کیونکہ آدھا کشمیر پاکستان میں ہے۔‘

جوناتھن سوان نے کہا کہ یہ انسانی حقوق کی بڑی خلاف ورزی ہے جس کے جواب میں عمران خان کہتے ہیں کہ ’مجھے اس پر یقین نہیں۔ چین سے ہماری بات چیت میں یہ بات سامنے نہیں آئی۔‘

انٹرویور نے سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کی مثال دی اور کہا کہ ظاہر ہے چینی آپ کو یہی بتائیں گے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ انھوں نے ایک بار پھر پوچھا کہ ’کیا آپ کو سنکیانگ میں اویغوروں کی کوئی فکر نہیں؟‘

عمران خان نے جواباً ایک بار پھر کہا کہ ’چین سے ہماری بات چیت ہمیشہ بند دروازے کے پیچھے ہو گی۔‘

’جو بائیڈن سے اب تک بات ہوئی؟‘

افغانستان سے امریکی انخلا پر وزیر اعظم نے کہا کہ اگر طالبان افغانستان میں مکمل فتح کے لیے سرگرم ہوئے تو افغانستان کے بعد پاکستان کو اس کا سب سے زیادہ نقصان ہو گا۔ ’امریکی انخلا سے قبل افغانستان کے اندر امن قائم کرنے کے لیے (قوتوں کے درمیان) مذاکرات ضروری ہیں۔‘

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’جو کوئی بھی افغان عوام کی نمائندگی کرے گا ہم اس سے بات چیت کریں گے۔‘

خیال رہے کہ طلوع نیوز کو انٹرویو میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چند روز قبل کہا تھا کہ افغان طالبان کے مذاکرات کار ’امن عمل میں سہولت کاری‘ کے لیے پاکستان آتے ہیں اور پاکستان اُن کے ساتھ اسی مقصد کے لیے مل کر کام کر رہا ہے۔

عمران خان نے یہ تسلیم کیا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر اسلام آباد میں ایک غیر اعلان شدہ دورہ پر آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ان سے ملاقات نہیں کی بلکہ آئی ایس آئی کے سربراہ ان سے ملے تھے۔

انٹرویور نے کہا کہ امریکہ پاکستان میں فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ افغانستان پر نظر رکھ سکے۔ اس سوال پر کہ آیا پاکستان اس کی اجازت دے گا، عمران خان نے کہا ’ایبسلوٹلی ناٹ (بالکل نہیں)۔ ہم کسی صورت اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ پاکستان کی سرزمین سے افغانستان میں کسی قسم کی سرگرمی۔۔۔ ہم بالکل اس کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

’امریکی جنگ میں شریک ہو کر پاکستان نے 70 ہزار جانیں گنوائیں۔ ہم اپنی سرزمین سے مزید فوجی کارروائیاں برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم امن میں شراکت دار ہوں گے، لڑائی میں نہیں۔‘

عمران خان سے پوچھا گیا کہ آیا انھوں نے اب تک امریکی صدر جو بائیڈن سے بات چیت کی ہے تو ان کا جواب تھا کہ ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ ’کیوں‘ کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ’جب بھی ان کے پاس وقت ہو وہ میرے سے بات کر سکتے ہیں لیکن ظاہر ہے اس وقت ان کی ترجیحات اور ہیں۔‘

عمران خان نے یہ امید ظاہر کی کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے امریکہ کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔

پاکستان میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد بڑھنے کے خدشات پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کے بعد سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ ان کے مطابق پاکستان کی جانب سے جوہری ہتھیار رکھنے کا مقصد انڈیا کے ساتھ کسی کشیدہ صورتحال کو روکنا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جس لمحے کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا، مجھے لگتا ہے، دونوں ملکوں کو جوہری ہتھیاروں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘

’خاتون کم کپڑے پہنے تو اس کے مرد پر اثرات تو ہوں گے‘

صحافی جوناتھن سوان نے عمران خان سے کہا کہ پاکستان میں ریپ اور جنسی جرائم کے واقعات کے بارے میں جب ان سے پوچھا گیا تھا تو انھوں نے صورتحال کی سنجیدگی کا اعتراف کیا، سخت قوانین کا ذکر کیا مگر ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ ’خواتین کے پردہ کرنے کا مقصد ترغیب کو روکنا ہے۔ ہر مرد میں وِل پاور نہیں ہوتی۔ آپ معاشرے میں جتنی فحاشی بڑھاتے جائیں گے تو اس کے اثرات ہوں گے۔‘

انٹرویور نے پوچھا کہ ان پر ریپ کی متاثرہ خواتین کو ہی اس کا مورد الزام ٹھہرانے کے الزامات کیوں لگائے جاتے ہیں۔

عمران خان کا اس پر جواب تھا کہ ’یہ سب بکواس ہے۔ میں نے کبھی پردے کا ذکر نہیں کیا۔ ایسا کبھی نہیں کہا گیا۔ میں نے پردے کے مقصد پر بات کی تھی۔ پردے کا مقصد معاشرے میں ٹیمٹیشن (ترغیب) کو روکنا ہے۔ ہمارے ہاں ڈسکو یا نائٹ کلب نہیں۔ یہاں معاشرہ اور طرز زندگی بالکل مختلف ہے۔ اگر آپ معاشرے میں ترغیب بڑھائیں گے تو ایک موقع پر جب ان تمام مردوں کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو گی، اس کے معاشرے پر اثرات ہوں گے۔‘

انٹرویور نے ان سے پوچھا کہ کیا انھیں لگتا ہے معاشرے میں یہ ترغیب پھیلنے کا تعلق اس بات سے ہے کہ خواتین کیا کپڑے پہنتی ہیں، جس پر عمران خان کا جواب تھا کہ ’اگر کسی خاتون نے بہت کم کپڑے پہنے ہیں تو اس کے مرد پر اثرات تو ہوں گے، جب تک کہ (یہ مرد) روبوٹ نہ ہو۔ یہ کامن سینس ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایسا عمل جنسی تشدد کے واقعات کو ابھار سکتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ اگر ایک معاشرے میں لوگوں نے ایسی چیز نہیں دیکھی تو ان پر اس کے اثرات ہوں گے۔ اگر کوئی آپ جیسے معاشرے میں پروان چڑھے تو شاید اس کے آپ پر کوئی اثرات نہ ہوں۔‘

’یہ کلچرل ایمپیرئل ازم (ثقافتی سامراجیت) ہے کہ جو کچھ ہمارے کلچر میں ہے وہ دوسرے کے کلچر میں بھی ہو۔ ایسا نہیں ہوتا۔‘

جوناتھن سوان نے پوچھا کہ ’جب آپ ایک کرکٹ سٹار تھے تو آپ کو پلے بوائے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ آپ کے اپنے بیڈروم میں بغیر شرٹ کے تصاویر تھیں۔ آپ کی جانب سے اس بات پر تنقید کرنا ٹھیک نہیں لگتا۔‘

عمران خان کا اس پر جواب تھا کہ ’یہ بات میرے سے متعلق نہیں۔ یہ میرے معاشرے کے بارے میں ہے۔ میری یہ ترجیح ہے کہ میرے معاشرے میں لوگوں کا رویہ کیسا ہے، کیسے ردعمل سامنے آتے ہیں۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ سیکس کرائم بڑھ رہے ہیں تو ہم بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں کہ ہم کیسے اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں کیونکہ میرا معاشرہ اس سے متاثر ہو رہا ہے۔ ہمیں اس بارے میں کچھ کرنا پڑے گا۔‘

سوشل میڈیا پر عمران خان کے انٹرویو پر تبصرے

اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم پاکستان ملک میں مقبول ہیں چاہے اس کے پیچھے جو بھی وجوہات ہوں۔ اور ان کے انٹرویوز سوشل میڈیا پر فوراً بحث کا مرکز بن جاتے ہیں جہاں ان کی حمایت اور مخالفت میں لوگ کم از کم اپنی رائے ضرور دیتے ہیں۔

ماہر قانون ریما عمر نے خواتین سے متعلق ان کے بیان پر کہا کہ ’یہ مایوس کُن ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ملک میں جنسی تشدد کی وجوہات میں متاثرہ افراد کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔‘

لیکن ان کی ٹویٹ پر وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا نے جواب دیا کہ یہ بات سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے۔ ’وہ یہ بات کر رہے ہیں کہ ہم کس قسم کے معاشرے میں رہتے ہیں اور یہ کہ ہمارے معاشرے میں سیکشوئل فرسٹریشن (جنسی مایوسی) ہے۔‘

صحافی مہدی حسن نے عمران خان کے اویغور مسلمانوں سے متعلق بیان پر کہا کہ ان کے لیے ’یہ دیکھنا دردناک تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’عمران خان یہ دکھاوا کر رہے ہیں کہ سنکیانگ میں مسلمانوں پر ظلم نہیں کیا جاتا کیونکہ چینی حکومت میں ان کے دوستوں نے انھیں ایسا بتایا ہے۔‘

اینکر کامران شاہد نے عمران خان کے اس بیان پر انھیں داد دی کہ ’اب پاکستان امریکہ کو افغانستان میں کارروائیاں کرنے کے لیے لانچ پیڈ نہیں دے گا۔۔۔ قومی مفاد کو بہترین انداز میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں