ایران میں قاتلوں کی حکومت قائم ہو گئی ہے، اسرائیلی وزیراعظم نیفتالی

یروشلم (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے/اے پی/روئٹرز) اسرائیلی حکومت نے سخت گیر سمجھے جانے والے ابراہیم رئیسی کے ایران کا صدر منتخب ہونے کی سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے عالمی طاقتوں کومتنبہ کیا ہے کہ وہ تہران کے ساتھ کوئی جوہری معاہدہ نہ کریں۔

اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ نے ابراہیم رئیسی کے ایرانی صدر کے طور پر انتخاب کو’قاتلوں کی حکومت‘ کا آغا ز قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے کہا کہ جوہری معاہدے کے حوالے سے ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

ساٹھ سالہ قدامت پسند رہنما اور ایرانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ابراہیم رئیسی ایک ایسے وقت ایران کے صدر منتخب ہوئے ہیں جب تہران اوربڑی عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے حوالے سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔

اسرائیلی رہنما نے کیا کہا؟

نیفتالی بینیٹ نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا”رئیسی کے انتخاب کے بعد، میں کہنا چاہوں گا کہ، اب دنیا کے پاس آخری موقع ہے کہ وہ ایران کے ساتھ دوبارہ جوہری معاہدے سے قبل جاگ جائیں۔ کیونکہ یہ لوگ قاتل ہیں۔ ان لوگوں نے قتل عام کیے ہیں۔”

امریکا اور بعض انسانی حقوق کی تنظیموں کا الزام ہے کہ 1988میں ایران۔عراق جنگ کے اختتام پر کم از کم پانچ ہزارسیاسی قیدیوں کو پھانسی دی گئی تھی۔ ابراہیم رئیسی پھانسی کا فیصلہ کرنے والے اسی کمیشن کے رکن تھے۔ ان پر 2009 کے متنازعہ صدارتی انتخابات کی مخالفت کرنے والے مظاہرین کے خلاف کارروائیوں میں بھی ملوث رہنے کا الزام ہے۔

ایران نے تاہم کبھی بھی بڑے پیمانے پر قتل کو تسلیم نہیں کیا ہے اور ابراہیم رئیسی نے اپنے اوپر عائد الزامات پر کبھی کچھ نہیں کہا۔

اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ کا کہنا تھا، ”(ایرا ن کے روحانی پیشوا) خامنہ ای جن افراد کو منتخب کرسکتے تھے اس میں سے انہوں نے ”تہران کے جلاد” کا انتخاب کیا۔“

نیفتالی بیٹنیٹ کا کہنا تھاکہ ظالمانہ انداز میں لوگوں کو پھانسیاں دینے والی اس حکومت کے پاس تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں اور اس حوالے سے اسرائیل کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

اسرائیلی وزیر خارجہ کا بیان

اسرائیل کے وزیر خارجہ اور متبادل وزیر اعظم یائر لیپید نے کہا کہ ابراہیم رئیسی کے منتخب ہونے کا مطلب جوہری معاہدے کا خاتمہ ہے۔ لیپید نے ایک ٹوئٹ میں کہا،”نئے ایرانی صدر ایک سخت گیر شخص ہیں جو ہزاروں ایرانیوں کی موت کے لیے ذمہ دار ہیں۔”

اسرائیل کے وزیر خارجہ نے متنبہ کیا کہ ابراہیم رئیسی کے انتخاب کے بعد تہران کے جوہری پروگرام کو فوراً روکنے کے لیے ایک نئے عزم کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خطے کے لیے ایران کے تباہ کن عزائم کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

قبل ازیں اسرائیلی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں نو منتخب ایرانی صدر کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ ایران کے اب تک کے سب سے انتہا پسند صدر ہوں گے۔ وہ ایران کے جوہری پروگرام میں تیز رفتار پیش رفت کے لیے پرعزم ہیں۔

ابراہیم رئیسی کون ہیں؟

ابراہیم رئیسی کو ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای کا قریبی معتمد سمجھا جاتا ہے۔ ساٹھ سالہ رئیسی اپنے کیریئر میں بیشتر اوقات قانون کے شعبے سے وابستہ رہے۔ خامنہ ای نے انہیں سن 2019 میں ایرانی سپریم کورٹ کا سربراہ نامزد کیا تھا۔ انہوں نے سن 2017 میں صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا لیکن وہ صدر حسن روحانی سے ووٹوں کے کافی بڑے فرق سے ہار گئے تھے۔

ابراہیم رئیسی سن 2016 میں ایران کے سب سے اہم ترین مذہبی ادارے امام رضا فاوندیشن کے سربراہ بھی مقرر کیے گئے تھے۔

اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنے من پسند امیدوارکی کامیابی کے لیے اپنا اثرو نفوذ استعمال کیا ہے۔ اس نے الزام لگایا کہ حکومتی انتظامیہ نے مخالف امیدوار کی کامیابی کے خدشے کے پیش نظر پچاس فی صد سے زاید ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کے لیے نا اہل قرار دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں