طالبان نے افغانستان کے 50 اضلاع پر قبضہ کر لیا، اقوام متحدہ

نیو یارک (ڈیلی اردو/بی بی سی) اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے آخری دنوں میں طالبان کی طرف سے حملوں میں تیزی آ گئی ہے اور انہوں نے درجنوں اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔

اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر ڈیبورا لائنز نے سلامتی کونسل کو سنگین نتائج کے بارے میں خبردار کیا اور بتایا کہ مئی کے بعد سے طالبان جنگجوؤں نے افغانستان کے 370 اضلاع میں سے 50 اضلاع پر قبضہ حاصل کر لیا ہے۔

واضح رہے کہ افغانستان میں کل اضلاع کی تعداد 421 اورصوبوں کی تعداد 34 ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں لڑائی بڑھنے سے دور اور نزدیک کے بہت سے ملکوں پر اثر پڑے گا۔

امریکہ اور نیٹو کے ملک ابھی تک گیارہ سمتبر تک انخلا مکمل کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔ تاہم امریکی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ طالبان کی بڑھتی ہوئی کامیابیوں کے پیش نظر غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کی رفتار کم کی جا سکتی ہے۔

ڈبیورا لائنز نے 15 رکنی سلامتی کونسل کو نیویارک میں بتایا کہ طالبان کی حالیہ پیش رفت ان کی طرف سے کارروائیوں میں تیزی کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ جن اضلاع پر طالبان قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان میں اکثریت ایسے اضلاع کی ہے جو صوبائی دارالحکومتوں سے اردگرد ہیں اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ملکی افواج کے ملک سے نکلتے ہیں وہ ان صوبائی دارالحکومتوں پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔

افغان حکام کا کہنا ہےکہ طالبان نے منگل کے روز تاجکستان کے ساتھ افغانستان کے انتہائی اہم سرحدی راستے پر قبضہ کر لیا ہے۔

یہ سرحد راستے شمال مشرقی صوبے قندوز میں ہے جہاں حالیہ دنوں میں لڑائی میں تیزی آ گئی ہے۔

طالبان نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے صوبے کے زیادہ تر علاقے پر قبضہ کر لیا ہے اور صرف صوبائی دارالحکومت میں سرکاری فوجیں موجود ہیں۔ کابل میں افغان وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ سرکاری افواج نے بہت سے اضلاع پر قبضہ بحال کر لیا ہے اور اس کی کارروائیاں ابھی جاری ہیں۔امریکہ کی فوج کا کہنا ہے کہ طالبان کی حالیہ دنوں میں جنگی کامیابیوں کے پیش نظر افغانستان سے جاری غیر ملکی افواج کے انخلاء کی رفتار کو کم کیا جا سکتا ہے۔

قبل ازیں امریکہ کی وزارتِ دفاع پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کی آخری تاریخ گیارہ ستمبر ہی رہے گی لیکن فوجیوں کی واپسی کی رفتار کو کم کیا جا سکتا ہے۔

امریکہ کی وزارتِ دفاع کے حکام نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ نصف انخلاء ہو چکا ہے۔

افغانستان سے نیٹو اور امریکی فوج کا جب سے انخلاء شروع ہوا ہے اس وقت سے ملک میں تشدد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔

افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ستمبر کی گیارہ تاریخ تک مکمل ہونا ہے

گزشتہ ایک ماہ کے دوران طالبان کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے اور انہوں نے ملک کے 30 اضلاع پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق انتہا پسند اسلامی گروہ نے سرکاری فوج سے بھاری مقدار میں اسلح بارود چھین لینے کے علاوہ بڑی تعداد میں افغان فوجیوں کو ہلاک اور زخمی بھی کیا ہے۔

افغانستان کی حکومت کے ترجمان ان خبروں کی تردید کرتے ہیں کہ طالبان نے درجنوں اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان اضلاع کو ایک جنگی حکمت عملی کے تحت خالی کر دیا گیا ہے اور یہ واضح نہیں کہ طالبان کو کتنا جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے پولیس کے حوالے سے خبر دی ہے کہ طالبان نے دفاعی نکتہ نگاہ سے اہم قندوز شہر کو گھیرے میں لے لیا ہے۔

یہ شہر جو ایک عرصے سے طالبان کے نشانے پر ہے سنہ 2015 میں کچھ دنوں کے لیے طالبان کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا لیکن اس کے بعد سرکاری فوج نے نیٹو اور امریکی افواج کی مدد سے طالبان کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔

افغان سکیورٹی فورسز نے اتوار کو شمال مشرقی صوبے تخار میں طالبان کے حملوں کو پسپا کر دیا اور دو اضلاع پر اپنا قبضہ بحال کر لیا تھا۔

امریکہ کی وزارتِ دفاع کے ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں صورت حال بدل رہی ہے کیونکہ طالبان ضلعی مراکز پر حملے کر رہے ہیں اور تشدد جو پہلے ہی بہت زیادہ ہے اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر انخلاء کی رفتار کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑے یا فوج کو کسی ہفتے یا دن واپس نکالنے کو روکنا پڑے تو اس میں وہ لچک رکھنا چاہتے ہیں۔

‘ہم مستقل اور روزانہ کی بنیاد پر اس چیز کا جائزہ لے رہے ہیں کہ زمینی صورت حال کیا ہے، ہمیں کیا درکار ہو سکتا ہے اور ملک سے نکلنے کے لیے ہمیں کیا اضافی وسائل درکار ہو سکتے ہیں اور اس کی رفتار کیا ہونی چاہیے۔’

انہوں نے کہا کہ یہ سب اہم فیصلے وقت کے وقت کیے جا رہے ہیں۔ امریکہ نے اکتوبر سنہ 2001 میں طالبان کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا تھا۔ طالبان القاعدہ تنظیم کے رہنما اسامہ بن لادن اور دیگر سرکردہ ارکان کو پناہ دیئے ہوئے تھے۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن کہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکہ کی افواج کے انخلا کا جواز ہے کیونکہ امریکی افواج نے اس بات کو یقنی بنا دیا ہے کہ افغانستان میں اب غیر ملکی انتہاہ پسند مغرب ممالک کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے جمع نہ ہو سکیں۔

اقوام متحدہ کے ایک اعلی اہلکار نے گزشتہ سال اس بارے میں خبردار کیا تھا کہ القاعدہ کے بہت سے ارکان اب طالبان میں سرائیت کر چکے ہیں۔

افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ حکومتی فورسز طالبان کے حملوں کو روکنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں لیکن اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ غیر ملکی افواج کے ملک سے نکلنے کے بعد ملک ایک مرتبہ پھر طالبان کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔

صدر جوبائیڈن نے اس بات کی یقنی دہانی کرائی ہے کہ فوجوں کے انخلاء کے بعد امریکہ افغان حکومت کی پوری مدد کرتا رہے گا لیکن اس میں فوجی مدد شامل نہیں ہو گی۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ میں منگل کو شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں امریکہ کا شراکت دار ہو سکتا ہے لیکن وہ افغانستان پر حملوں کے لیے امریکہ کو پاکستان کی سرزمین پر اڈے فراہم نہیں کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ماضی میں افغانستان میں متحرب گروہوں کا ساتھ دے کر غلطی کی تھی۔ عمران خان نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ وہ ہر اس قوت کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہیں جس کو افغان عوام کا اعتماد حاصل ہو۔

افغانستان کے رہنما ایک عرصے سے پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی کرنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ افغانستان سے نیٹو اور امریکی فوج کے انخلاء کے اہداف کو حاصل کرنے میں پاکستان کی مدد اور تعاون ہمیشہ انتہائی اہم سمجھا جاتا رہا ہے۔

عمران خان نے حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں امریکہ خفیہ ایجنسی سی آئی اے کو افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف فضائی حملے کرنے کے لیے پاکستان میں فوجی اڈے فراہم کرنے کے سوال کے جواب میں ‘قطعی نہیں’ کہہ کر سختی سے مسترد کر دیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں