روس کا برطانوی بحری جنگی جہاز پر انتباہی فائرنگ اور بمباری کا دعویٰ

ماسکو (ڈیلی اردو) روس نے بحیرہ اسود میں کریمیا کے قریبی علاقے میں برطانوی جہاز کو روکنے کے لیے اسے خبردار کرتے ہوئے بم گرا دیے۔

امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ سرد جنگ کے بعد پہلی مرتبہ پیش آیا ہے جب روس نیٹو کے جنگی جہازوں کو روکنے کے لیے کارروائی کرتا تھا۔

تازہ واقعے کے بعد روس اور مغربی طاقتوں کے درمیان گہرے ہوتے کشیدہ تعلقات کے باعث فوجی تصادم کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔

روس کی وزارت دفاع نے کہا کہ روس کے جنگی جہازوں نے خبردار کرنے کے لیے اس لیے فائرنگ کی جب برطانوی میزائل شکن ڈیفنڈر نے روس کی سمندری حدود میں داخلے کے خلاف ایک نوٹس کو نظرانداز کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ روسی ایس یو-24 بمبار نے بھی برطانوی جہاز کو روکنے کے لیے 4 بم گرئے تاکہ وہ اپنا ارادہ بدل لے۔

روسی وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ برطانوی جہاز ایچ ایم ایس ڈینفڈر واقعے کے فوری بعد روسی سمندر حدود سے چلا گیا، جو تقریباً تین کلو میٹر تک اندر آگیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ کریمیا کے ساحل پر مشہور کیپ فیولینٹ کے قریب پیش آیا۔

انہوں نے کہا کہ برطانوی جہاز کو خبردار کیا جاتا رہا تھا کہ روس کی سرحد عبور کی تو اسلحہ استعمال کیا جائے گا لیکن اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔

روس کے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ماسکو میں تعینات برطانوی سفیر کو احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ روس نے یوکرین کے جزیرے کریمین کو 2014 میں اپنی حدود میں ضم کردیا تھا، جس کو اکثر مغربی ممالک تسلیم نہیں کرتے جبکہ نیٹو کے جنگی جہاز بھی اس علاقے میں آتے ہیں تاہم اس حوالے سے روس کا مؤقف ہے کہ یہ کشیدگی کا باعث ہے۔

نیٹو کے رکن ممالک ترکی، یونان، رومانیہ اور بلغاریہ تمام بحیرہ اسود میں موجود ہیں لیکن امریکا، برطانیہ اور دیگر نیٹو اتحادیوں کے جنگی جہاز یوکرین سے حمایت کے اظہار کے لیے مسلسل یہاں کا دورہ کرتے ہیں۔

برطانوی وزارت دفاع نے واقعے کی اطلاع مسترد کردی

برطانیہ کی وزارت دفاع نے اپنے جنگی جہاز کی جانب سے روسی سمندری حدود کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اورنہ ہی اس پر فائرنگ ہوئی۔

بیان میں کہا گیا کہ خبردار کرنے کے لیے جنگی جہاز پر فائر نہیں کیا گیا، رائل نیوی کا جہاز غلطی سے یوکرین کی سمندری حدود سے بین الاقوامی قانون کے مطابق گزر رہا تھا۔

برطانوی وزارت دفاع نے کہا کہ ہمارا ماننا ہے روس بحیرہ اسود میں مشقیں کر رہا ہے اور میری ٹائم کمیونٹی کو اپنی سرگرمیوں کے حوالے سے پہلے ہی آگاہ کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ برطانوی جہاز کی طرف کوئی فائر نہیں کیا گیا اور ہم اس دعوے کوتسلیم نہیں کرتے کہ اس کے راستے میں بم گرائے گئے۔

برطانوی سیکریٹری دفاع بین ویلیس نے کہا کہ برطانوی جہاز بحیرہ اسود کے راستے معمول کے روٹ پر اوڈیسا سے جارجیا جا رہا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ جہاز معمول کے روٹ پر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ راہداری سے گزرا اور جہاز راہداری سے محفوظ طریقے سے گزر گیا۔

انہوں نے کہا کہ روسی جہازوں کو اس کے گزرنے کا پتہ چلا اور انہیں وسیع علاقے میں مشقوں سے آگاہ کردیا گیا تھا۔

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے ترجمان میکس بلین نے کہا کہ ہم یہ رپورٹ صبح دیکھی، یہ درست نہیں ہے کہ اس پر فائر کیا گیا یاجہاز روسی سمندری حدود میں داخل ہوگیا تھا کیونکہ ہمارا یوکرین اورجارجیا کے درمیان عالمی طور پر تسلیم شدہ روٹ سے گزر رہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ دیگر عالمی برادری کی طرح کریمیا کے انضمام کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔

دوسری جانب یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا نے کہا کہ واقعہ یوکرین کی پوزیشن کا واضح ثبوت ہے کہ بحیرہ اسود میں روسی جارحیت اور اشتعال انگیز اقدامات جاری ہیں، کریمیا پر اس کا قبضہ یوکرین اور اس کے اتحادیوں کے لیے مسلسل ایک خطرہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں