ایران کو قابو میں رکھنے کیلئے فضائی حملے کیے، امریکی صدر

واشنگٹن (ڈیلی اردو/روئٹرز/ڈی ڈبلیو) صدر جو بائیڈن نے امریکی کانگریس کو بتایا کہ انہوں نے ایران کے طرف سے درپیش خطرات کو روکنے کے مقصد سے ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری کا حکم دیا تھا۔

صدر جو بائیڈن نے شام اور عراق میں ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری کا دفاع کیا ہے۔ منگل کے روز امریکی کانگریس کو بھیجے گئے ایک خط میں انہوں نے کہا کہ ایران کے طرف سے درپیش خطرات کو روکنے کے مقصد سے بمباری کا حکم دیا تھا۔

امریکا نے منگل کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ اس نے گزشتہ دنوں شام اورعراق میں ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر اس لیے فضائی حملے کیے تاکہ عسکریت پسند اور تہران امریکی شہریوں اور تنصیبات پر مزید حملے یا حملے کرنے میں مدد نہ کرسکے۔

دراصل اگر کوئی ملک اپنے دفاع میں کسی کے خلاف مسلح حملہ کرتا ہے تو اسے اقوام متحدہ کے چارٹر کے دفعہ 51 تحت اس اقدام کے بارے میں پندرہ رکنی سلامتی کونسل کو فوراً آگاہ کرنا پڑتا ہے۔

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ان حملوں میں ان ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جن کا عسکریت پسند عراق میں امریکی اہلکاورں اور تنصیبات کے خلاف ڈرون اور راکٹ حملوں کے لیے استعمال کر رہے تھے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انہوں نے سلامتی کونسل کو ارسال کردہ خط میں کہا،”یہ فوجی کارروائی مذکورہ خطرے کو ناکام بنانے کے لیے تمام غیر فوجی متبادل ناکام ہوجانے کے بعد کی گئی۔ اس کا مقصد صورت حال کو مزید خراب ہونے سے بچانا اور مزید حملوں کو روکنا تھا۔”

جو بائیڈن کی وضاحت

امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی شام اور عراق میں ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کا دفاع کیا۔ منگل کے روز کانگریس کو ارسال کردہ ایک خط میں انہوں نے کہا،”مزید خطرات یا حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اگر ضرورت محسوس کی گئی اور مناسب سمجھا گیا تو امریکا مزید کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔”

صدر جو بائیڈن نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ انہوں نے شام اور عراق میں ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر 27 جون کو بمباری کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ ایران کی طرف سے درپیش خطرات کو روکا جاسکے۔

بائیڈن کا کہنا تھا کہ ان حملوں کا مقصد امریکی اہلکاروں کا دفاع اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانا، امریکا اور اس کے اتحادیوں پر ہونے والے مسلسل حملوں کو روکنا اور ایران کو خطے میں امریکی مفادات پر حملوں سے باز رکھنا تھا۔

امریکی افواج پر 34 راکٹ حملے

امریکی فضائی حملوں کے جواب میں شام سے امریکی فوج پر راکٹ حملے کیے گئے۔ ایک امریکی فوجی عہدیدار نے منگل کے روز بتایا کہ ان حملوں کے دوران تقریباً 34 راکٹ فائر کیے گئے لیکن کوئی امریکی اہلکار زخمی نہیں ہوا۔

صدر جو بائیڈن نے امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی کے نام خط میں عسکریت پسندوں کے حملوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 4 اپریل، 18 اپریل اور 3 مئی کو بلد فوجی اڈے پر،4 اپریل کو بغداد کے قریب سفارتی انکلیو اور 24 مئی کو عین الاسد ہوائی اڈے پر راکٹ حملے کیے گئے۔ اس کے علاوہ 14 اپریل کو اربیل میں امریکی تنصیبات پر ڈرون سے حملہ کیا گیا جبکہ 8 مئی کو بشور ایئر بیس اور 10 مئی کو بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر حملہ کیا گیا۔

امریکی صدر نے اپنے خط میں کہا ہے کہ ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں سے امریکا اور اتحادی افواج کے اہلکاروں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔

امریکی ایوان نمائندگان کے بعض اراکین نے کانگریس سے باضابطہ منظوری کے بغیر ان فضائی حملوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے حملوں سے قبل صدر بائیڈن کو کانگریس سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں