جنوبی وزیرستان کے گورنمنٹ ہائی سکول میں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے وال چاکنگ

وانا (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں پولیس کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے گورنمنٹ ہائی سکول کڑمہ کی عمارت اور برآمدے کی دیوار پر کی جانے والی وال چاکنگ کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی نے وال چاکنگ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے نعرے درج ہونا یقینی طور پر اس وقت مقامی شہریوں کے لیے باعث تشویش ہے۔

جب ڈی پی او جنوبی وزیرستان شوکت علی سے اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بدھ کو گورنمنٹ ہائی سکول کڑمہ کے عمارت پر ٹی ٹی پی سے متعلق وال چاکنگ کا علم ہوا ہے تاہم یہ بات وثوق سے نہیں کی جا سکتی کہ وال چاکنگ طالبان نے کی ہے یا کسی اور نے۔

اُنھوں نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے مقامی انتظامیہ اور پولیس نے تحقیقات شروع کی ہیں جس میں اس بات کا اندازہ لگایا جائے گا کہ یہ حرکت کس کی جانب سے کی گئی ہے۔

ایک مقامی ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیر کو کڑمہ کے علاقے میں مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان کے ارکان کو کئی جگہ پر دیکھا گیا اور جب صبح کے وقت لوگ مارکیٹ کی طرف جا رہے تھے تو اُنھوں نے دیکھا کہ سکول کی دیوار اور برآمدے پر تحریک طالبان پاکستان سے متعلق وال چاکنگ ہوئی ہے۔

کڑمہ جنوبی وزیرستان تحصیل لدھا کا نواحی علاقہ ہے جو سنگلاخ چٹانوں اور گھنے جنگلات پر مشتمل ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کے ذرائع نے بھی وال چاکنگ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وال چاکنگ تحریک طالبان پاکستان کے حمزہ گروپ کی جانب سے کی گئی ہے جو تحریک طالبان پاکستان کا ذیلی گروپ ہے۔

مقامی انتظامیہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تقریباً 6 ماہ قبل کڑمہ کے مرکزی بازار کی عمارت کو بھی طالبان نے بموں سے اس لیے اُڑایا تھا کہ بازار کی عمارت بنانے والے ٹھیکیدار نے طالبان کو کمیشن دینے سے انکار کیا تھا۔

تشدد کے واقعات میں اضافہ

حالیہ کچھ دنوں میں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں تشدد کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہوا ہے اور اس مرتبہ تشدد کے واقعات کی نوعیت قدرے مختلف ہے۔

ماضی میں شدت پسند بڑی کارروائیاں کرتے تھے جن میں ایک وسیع علاقے میں بم دھماکے، خود کش حملے، فوجی قافلوں کو نشانہ بنانا اور بارودی سرنگیں بچھا کر کارروائیاں کرنا شامل تھا، لیکن آپریشن ضرب عضب کے بعد بڑی حد تک شدت پسندوں کو نقصان پہنچا اور وہ یہ علاقہ چھوڑ کر سرحد پار افغانستان چلے گئے اور یا انھی علاقوں میں روپوش ہو گئے تھے۔

لیکن شدت پسندوں کی کارروائیاں آپریشن کے کچھ عرصے بعد پھر شروع ہو گئی تھیں اور اس مرتبہ شدت پسندی کے بیشتر واقعات ٹارگٹ کلنگ تک محدود رہے۔ ان میں سکیورٹی فورسز پر حملے اور بعض مقامات پر دھماکے بھی کیے گئے ہیں۔

شمالی وزیرستان میں سال 2019 میں ٹارگٹ کلنگ کے لگ بھگ 51 واقعات پیش آئے جبکہ سال 2020 میں ان کی تعداد 31 تک رہی ہے۔ رواں سال شمالی وزیرستان میں ایک درجن سے زیادہ واقعات پیش آ چکے ہیں۔

ماضی میں بڑے حملے نمایاں رہے اور ذرائع ابلاغ میں بھی نظر آتے رہے لیکن ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو اس طرح کوریج نہیں مل سکی جس وجہ سے اس طرف توجہ کم رہی اور اب بعض تجزیہ کاروں کے مطابق حالات ایک مرتبہ پھر کشیدگی کی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں۔

ایک لاپتہ ٹیچر کی لاش 14 برس بعد برآمد، ایک صحافی سے ‘چند لمحوں کی ملاقات’ گمشدگی کی وجہ بنی؟

شمالی وزیرستان سے یہ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ تحصیل دتہ خیل میں ڈوگہ مچہ کے مقام پر شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع پر کارروائی کی جا رہی ہے جہاں اب تک تین شدت پسند اور ایک سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

دوسری جانب دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ کے مطابق یہ چند بچے کھچے عناصر ہیں جو کارروائیاں کر رہے ہیں اور اب ان کا دوبارہ مضبوط ہونا مشکل ہے۔

جنوبی وزیرستان کا ذکر کریں تو یہاں کچھ عرصے تک حالات بہتر رہے ہیں اور اس دوران ایسی اطلاعات موصول ہوتی رہیں کہ شدت پسند ان علاقوں میں کہیں روپوش ہیں۔

دفاعی امور کے ماہر اور تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ نے چند ماہ پہلے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ایسے شدت پسند ہیں جو سرنڈر کرنا چاہتے ہیں اور حکومت سے اس حوالے سے رابطے ہو رہے ہیں لیکن ان کے بقول اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے کچھ عناصر اس علاقے میں ضرور ہیں جنھوں نے پہلے سے سرنڈر کر رکھا ہے لیکن ان سرنڈر ہوئے افراد کو خطرات لاحق ہیں۔

مقامی ذرائع کے مطابق جنوبی وزیرستان میں گذشتہ ہفتوں کے دوران ٹارگٹ کلنگ میں ایسے افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ انھوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

چند روز پہلے جنوبی وزیرستان کی تحصیل سرویکیی میں شادوگئی کے مقام پر تین افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان تینوں افراد کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے تحریک طالبان پاکستان کو چھوڑ کر سرنڈر کر دیا تھا لیکن سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق کچھ عرصے کے دوران سرنڈر کرنے والے افراد پر حملے ہوئے ہیں جس میں سات افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ وزیرستان کے بعض علاقوں میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے کچھ عناصر کی سرگرمیاں دیکھی جا رہی ہیں اور بعض مقامات پر مبینہ طور پر ترقیاتی کاموں میں مصروف ٹھیکیداروں سے کمیشن کے مطالبے کی اطلاعات ہیں لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن ضرب عضب جون سال 2014 میں شروع کیا گیا تھا اور یہ آپریشن لگ بھگ چار سال تک جاری رہا، اس دوران بڑی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کی اور صرف شمالی وزیرستان سے 10 لاکھ افراد بے گھر ہوگئے تھے۔

بے گھر ہونے والے افراد کی دوبارہ بحالی شروع کی گئی تھی اور علاقے کو شدت پسندوں سے صاف کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا لیکن بعض علاقے ایسے ہیں جہاں سے نقل مکانی کرنے والے افراد کو واپس اپنے علاقوں میں اب تک نہیں بھیجا جا سکا ہے۔

واضح رہے کہ چند روز قبل بھی تحریک طالبان پاکستان نے جنوبی وزیرستان کے علاقے تیارزہ میں ایف سی اہلکاروں پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں ایف سی کے 3 اہلکار جاں بحق اور 3 زخمی ہوئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں