امریکا نے بگرام ایئربیس بغیر بتائے، رات کی تاریکی میں خالی کیا: افغان فوجی حکام کا دعویٰ

کابل (ڈیلی اردو/وی او اے/اے پی/رائٹرز) افغان فوج کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ نے بگرام ایئربیس رات کی تاریکی میں خالی کیا اور اس ضمن میں بیس کے مقامی کمانڈر تک کو آگاہ نہیں کیا گیا جنہیں دو گھنٹے بعد امریکی اہلکاروں کے جانے کا علم ہوا۔

​خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق افغان جنگ میں لگ بھگ 20 سال تک امریکہ کے زیرِ استعمال رہنے والی بگرام ایئربیس کے نئے کمانڈر جنرل میر اسد اللہ کوہستانی نے کہا ہے کہ امریکی فوج نے روانگی کے وقت فوجی اڈے کی بجلی بھی بند کر دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ امریکی فوج نے بیس پر 35 لاکھ اشیا چھوڑی ہیں جن میں پانی کی ہزاروں بوتلیں، مشروبات اور تیار خوارک کے پیکٹس شامل ہیں۔

امریکہ نے جمعے کو بگرام ایئربیس خالی کر دیا تھا اور اس سلسلے میں فوجیوں کی آخری کھیپ وہاں سے منتقل ہو گئی تھی۔ بعدازاں پیر کو افغان فوج نے اس اڈے کے وسیع حصے کا معائنہ کیا تھا۔

بیس کے نئے افغان کمانڈر کے بقول، “ہم نے کچھ افواہیں سنی تھیں کہ امریکیوں نے بگرام چھوڑ دیا ہے اور جب جمعے کی صبح سات بجے وہاں پہنچے تو اس بات کی تصدیق ہوئی کہ بیس کو پہلے ہی خالی کیا جا چکا تھا۔”

افغان فوجی اہلکاروں کی جانب سے امریکہ کے بگرام ایئربیس چھوڑنے کے طریقۂ کار پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔

SEE ALSO: طالبان کی پیش قدمی اور تیزی سے بدلتی زمینی صورتِ حال، افغانستان میں ہو کیا رہا ہے؟
ایک افغان اہلکار نعمت اللہ نے کہا کہ جس انداز میں فوجی اڈے کو خالی کیا گیا ہے امریکہ نے 20 سال کے دوران بنائی جانے والی اپنی ساکھ ایک ہی رات میں کھو دی ہے۔ ان کے بقول امریکہ نے افغان فوجیوں کو بتائے بغیر بیس خالی کیا اور ان افغان اہلکاروں کو بھی اس کا علم نہیں تھا جو فوجی اڈے کے باہر سیکیورٹی پر مامور تھے۔

ایک اور اہلکار رؤف کا کہنا تھا کہ جمعے کو امریکیوں کے جانے کے 20 منٹ میں بجلی بند ہو گئی تھی اور اڈہ تاریکی میں ڈوب گیا تھا جس کے بعد وہاں مقامی افراد نے لوٹ مار شروع کر دی تھی۔

البتہ امریکی فوج کے ترجمان کرنل سونی لیگیٹ نے متعدد افغان فوجیوں کی مخصوص شکایت پر توجہ نہیں دی۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ نے انخلا سے متعلق افغانستان کے رہنماؤں سے رابطہ کیا تھا اور اس سلسلے میں انہوں نے گزشتہ ہفتے کے بیان کا حوالہ بھی دیا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ جو بائیڈن کی جانب سے افغانستان سے فوجی انخلا کے اعلان کے کچھ عرصے بعد سے ہی ہوائی اڈے سے منتقلی کا عمل شروع کر دیا تھا۔

امریکہ نے گزشتہ جمعے اعلان کیا تھا کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے حتمی مرحلے میں اس نے افغانستان میں اپنے سب سے بڑے اڈے کو خالی کر دیا ہے۔

اسد اللہ کوہستانی نے اس بات پر زور دیا کہ جنگ میں طالبان کی ایک بڑی کامیابی کے باوجود افغان نیشنل سیکیورٹی اینڈ ڈیفنس فورس ایک بڑے اڈے کو سنبھال سکتی ہے۔ بگرام کے اس اڈے میں لگ بھگ پانچ ہزار قیدی بھی ہیں جس میں زیادہ تر مبینہ طور پر طالبان ہیں۔

امریکہ نے بگرام بیس پر کیا چھوڑا ہے؟
‘اے پی’ کی رپورٹ کے مطابق بگرام ایئر بیس کا سائز ایک چھوٹے شہر جتنا ہے جہاں بڑی سڑکوں کے ساتھ بیرکس اور کشادہ عمارتیں موجود ہیں۔

اڈے پر دو رن وے ہیں اور لڑاکا طیاروں کے لیے ایک سو سے زیادہ پارکنگ کے مقامات ہیں جہاں بم دھماکوں سے محفوظ رکھنے والی دیواریں بھی بنی ہوئی ہیں۔

ان دونوں رن ویز میں سے ایک 12 ہزار فٹ لمبا ہے اور اسے 2006 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مسافروں کا لاؤنج، پچاس بستروں پر مشتمل اسپتال اور ہینگر کے سائز کے بڑے ٹینٹس وغیرہ بھی موجود ہیں۔

امریکہ کی جانب سے بگرام ایئربیس پر چھوڑے گئے بڑے سامان میں ہزاروں سویلین گاڑیاں بھی ہیں جس میں کئی بغیر چاپی کے اسٹارٹ ہو جاتی ہیں۔ اسی کے علاوہ سیکڑوں مسلح گاڑیاں بھی ہیں۔

طالبان کی پیش قدمی، تاجکستان کی فوج متحرک
شمالی افغانستان میں طالبان ایک کے بعد ایک ضلع کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں اور گزشتہ دو روز کے دوران سیکڑوں افغان فوجی لڑائی کے دوران سرحد پار تاجکستان فرار ہو گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق طالبان کی پیش قدمی کے باعث ایک ہزار افغان سیکیورٹی فورسز کے سرحد پار آنے کے بعد تاجکستان کے صدر ایمومالی راخموں نے پیر کو حکم دیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحد پر 20 ہزار ریزور فوجی دستوں کو متحرک کیا جائے۔

علاوہ ازیں تاجک صدر نے علاقے کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کے لیے اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوٹن سے بھی گفتگو کی۔

یاد رہے کہ روس کی تاجکستان میں بڑی تعداد میں فوج موجود ہے۔

غیر ملکی افواج کا انخلا، افغانستان میں خانہ جنگی کا خدشہ

افغان اہلکاروں کے ہتھیار ڈالنے پر کوہستانی کا کہنا تھا کہ جنگ میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ ایک قدم آگے جاتے ہیں اور کچھ قدم پیچھے ہٹتے ہیں۔

ان کے بقول، “افغان فوج اسٹریٹجک اضلاع پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر رہی ہے۔”

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آئندہ دنوں میں ان اضلاع کو دوبارہ حاصل کریں گے جہاں طالبان قابض ہو چکے ہیں۔ البتہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کس طرح یہ عمل پورا ہو گا۔

جنرل میر اسد اللہ کوہستانی نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو کی لگ بھگ 20 سال تک افغانستان میں موجودگی قابلِ ستائش ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ افغانون کو ملک کے بہتر مستقبل کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے مسائل حل کرتے ہوئے ملک کو محفوظ بنانا چاہیے اور ایک مرتبہ پھر اپنے ہاتھوں سے اپنے ملک کو بنانا چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں