گلگت بلتستان میں انتہائی مطلوب شدت پسند کمانڈر حبیب الرحمن کی ساتھیوں سمیت ’کھلی کچہری‘ کی ویڈیو

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) گلگت بلتستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتہائی مطلوب شدت پسند کمانڈر حبیب الرحمن اپنے ساتھیوں سمیت ایک بار پھر منظر عام پر آگئے ہیں۔ کمانڈر حبیب الرحمن اور ان کے ساتھیوں پر نانگا پربت میں دس غیر ملکیوں کو قتل کرنے کے علاوہ دیگر شدت پسند سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔

گلگت بلتستان کے حکام نے سنہ 2013 میں انھیں دو ساتھیوں سمیت گرفتار کیا تھا تاہم سال 2015 میں وہ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ گلگت کی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ان کے تیسرے ساتھی جیل سے فرار ہونے میں ناکام رہے تھے۔

جیل سے فرار ہونے کے بعد وہ روپوش ہوگئے تھے مگر 7 جولائی کو انھوں نے ضلع دیامیر کے بابو سر ٹاپ کے پولو گراونڈ میں ایک ’کھلی کچہری‘ منعقد کی اور انھیں سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیو میں انٹرویو دیتے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

اس حوالے سے گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان اور دیامیر ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور ڈسڑکٹ پولیس افسر سے رابطہ قائم نہ ہونے پر پیغامات دیے گئے مگر جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ گلگت بلتستان پولیس کے ترجمان مبارک جان نے رابطہ کیے جانے پر اس حوالے سے کوئی موقف دینے سے انکار کیا ہے۔

گلگت بلتستان پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق کمانڈر حبیب الرحمن کے گروپ کا سربراہ مولوی عبدالحمید نامی شخص ہے۔ یہ گروپ خود کو ’مجاہدین گلگت بلتستان و کوہستان‘ کہلاتا ہے۔ اس گروپ کے بہت سے لوگوں نے خود کو حکام کے حوالے کر دیا تھا۔

ایک اور پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ’پتا نہیں یہ اچانک کہاں سے نکل آئے ہیں۔ مگر یہ اب کوئی خطرہ نہیں رہے ہیں۔ ان کا نیٹ ورک کافی سال پہلے توڑ دیا گیا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان بچے کچے لوگوں کا پیچھا کر رہے ہیں، ان کو جلد ہی گرفتار کرلیا جائے گا۔‘

شدت پسند کمانڈر کس طرح منظر عام پر آئے

بابو سر ٹاپ کے کئی رہائشیوں نے بتایا کہ کمانڈر حبیب الرحمن کو جو کہ ضلع چالاس کے رہائشی ہیں، گذشتہ برسوں میں نہیں دیکھا گیا تھا لیکن وہ بدھ کو اپنے کئی مسلح ساتھیوں کے ہمراہ جن میں سے کئی ایک نے چہرے ڈھانپے ہوئے تھے، اچانک بابو سر ٹاپ کے پولو گراونڈ میں پہنچ گئے جہاں پر وہ کافی دیر تک اپنے ساتھیوں سے بات چیت کرتے رہے۔

عینی شاہدین کے مطابق اس موقع پر کئی لوگوں نے ان سے ملاقات کی۔ موقعے پر موجود ایک شہری کا کہنا تھا کہ وہ کمانڈر حبیب الرحمن کو اس طرح منظر عام پر دیکھ کر حیران و پریشان رہ گئے ہیں۔

ایک اور شہری کا کہنا تھا کہ کمانڈر حبیب الرحمن نے کافی وقت پولو گراونڈ میں گزارا۔ گراؤنڈ میں ان کے ساتھیوں کے علاوہ کافی تعداد میں عام لوگ بھی جمع تھے۔

ویڈیو میں کیا ہے؟

اس موقع پر شدت پسند کمانڈر حبیب الرحمن نے ایک مقامی صحافی عیسیٰ خان کو انٹرویو بھی دیا جس کی ویڈیو اسی دن میں صحافی نے اپنے فیس بک پیج پر شائع کی۔

ویڈیو کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ ’مجاہدین گلگت بلتستان و کوہستان کی جانب سے بابوسر پولو گراؤنڈ میں کھلی کچہری کا انعقاد کیا گیا جہاں صبح سے لیکر شام تک دینی، دنیاوی، معاشی، معاشرتی، ملکی اور غیر ملکی مسائل پر بات چیت کی گئی۔‘

’مجاہدین گلگت بلتستان و کوہستان‘ کے نائب امیر کمانڈر حبیب الرحمٰن اخوندہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت وقت 20 فروری 2019 کو کھنبری گچھار کے مقام پر ہونے والے امن معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ رپورٹر اپنا تعارف کرواتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ بابو سر ٹاپ کے مقام پر موجود ہیں جہاں پر ’مجاہدین گلگت بلتستان و کوہستان‘ نے ’کھلی کچہری‘ کا انعقاد کیا ہے جس میں عمومی طور پر ’ملکی اور بین الاقوامی مسائل پر بات چیت کی گئی ہے‘۔

عیسیٰ خان آگے چل کر کہتے ہیں کہ اس موقع پر بالخصوص 20 فروری 2019 کو حکومت اور حساس اداروں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر بات کی گئی۔

ویڈیو میں عیسیٰ خان اپنے مہمان سے ان کا تعارف پوچھتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ’میرا نام کمانڈر حبیب الرحمن ہے اور میں گلگت بلتستان کا نائب امیر ہوں۔ میرے ساتھ کمانڈر نصر الدین، مولانا مسعود الحق اور کمانڈر لیاقت خان موجود ہیں‘۔

ویڈیو میں جن کا وہ تعارف کرواتے ہیں انھوں نے اپنی شناخت نہیں چھپائی جبکہ ان کے باقی مسلح ساتھیوں نے اپنے چہرے ڈھانپے ہوئے تھے۔ ویڈیو میں حبیب الرحمن ایک بار پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت اور حساس اداروں کے ساتھ ان کا معاہدہ ہوا تھا۔

اس کے بعد رپورٹر عیسیٰ خان کہتے ہیں کہ ’مجاہدین ایک بار پھر امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔‘

عیسیٰ خان سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی تاہم اس میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ گلگت بلتستان پولیس کے ترجمان نے اس ویڈیو کے حوالے سے بھی کوئی بات کرنے سے انکار کیا ہے۔

ویڈیو میں نظر آنے والے لوگ کون ہیں؟

ویڈیو میں نظر آنے والے کمانڈر حبیب الرحمن کو 2013 میں نانگا پربت میں دس غیر ملکی کوہ پیماؤں کے علاوہ شدت پسندی کی دیگر وارداتوں میں گرفتار کیا گیا تھا۔ نانگا پربت واقعے میں حکام نے بتایا تھا کہ واقعے میں 16 افراد ملوث ہیں مگر تین لوگوں کو گرفتار کیا جاسکا تھا۔

ان میں کمانڈر حبیب الرحمن اور کمانڈر لیاقت خان چند سال پہلے گلگت سٹی میں موجود سابقہ جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے جبکہ ان کے ایک ساتھی پنجاب کی ایک جیل میں فوجی عدالت میں مقدمے کے منتظر ہیں۔

کمانڈر حبیب الرحمن کو گرفتاری کے وقت حکام نے خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کی حدود میں مسافر بس پر حملے کا مرتکب بھی قرار دیا تھا۔ مسافر بس کو لالو سر کے مقام پر روک کر شناخت کے بعد 20 شیعہ مسافروں کو قتل کر دیا گیا تھا۔

کمانڈر لیاقت خان کے حوالے سے بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ نانگا پربت واقعے کے علاوہ شدت پسندی کے دیگر واقعات میں بھی ملوث ہیں جن میں مارے جانے والوں میں پولیس کے ایک ایس ایس پی، فوج کے کرنل اور کیپٹین شامل ہیں۔

کمانڈر حبیب الرحمن یا ان کے گروپ پر ضلع دیامیر میں طالبات کا سکول جلانے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔

گلگت بلتستان کے ایک صحافی کے مطابق بظاہر یہ تحریک طالبان پاکستان سے اپنا کوئی تعلق نہیں بتاتے تاہم طالبان افغانستان کے حوالے سے ’نرم گوشہ رکھنے کے علاوہ ان کی پیروی بھی کرتے ہیں‘۔

صحافی کے مطابق سنہ 2013 اور اس وقت پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف سکیورٹی اداروں کی جانب سے آپریشن کے دوران یہ لوگ روپوش ہوگے تھے۔ صحافی کے مطابق خیال ہے کہ انھوں نے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو امن و امان کی ضمانت فراہم کی تھی۔

اس حالیہ ویڈیو میں معاہدے کے حوالے سے کوئی واضح بات نہیں کی گئی کہ کیا معاہدہ تھا اس لیے اس حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں موجود ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں