افغان طالبان کے حاوی ہونے پر ‘تحریک طالبان پاکستان’ کو تقویت مل سکتی ہے، شاہ محمود قریشی

اسلام آباد (ڈیلی اردو) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے افغانستان میں طالبان کی سوچ حاوی ہونے پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو تقویت مل سکتی ہے۔

سینیٹر شیری رحمٰن کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کا اجلاس ہوا۔

اجلاس میں بات کرتے ہوئے شیری رحمٰن نے کہا کہ پاکستان کو بڑے خطرات لاحق ہیں اور افغانستان کے مسئلے پر سب کو تشویش ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی رہنماؤں کی رائے تھی کہ افغان صورتحال پر سیکیورٹی ادارے اعتماد میں لیں، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بریفنگ دی اور سوالات کے جواب دیے، عید سے قبل قومی سلامتی کمیٹی کی ایک نشست اور ہوگی۔

‘انگلی اٹھانے والا امریکا، پاکستان کو مددگار کہہ رہا ہے’

انہوں نے کہا کہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان دنیا میں تنہا ہے، یہ تاثر درست نہیں ہے، ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ پاکستان ہمارا مددگار اور تعمیری ساتھی ہے، یہ امریکا کہہ رہا ہے جو ہم پر انگلی اٹھاتا تھا، وہ کہہ رہے ہیں کہ آج افغانستان میں ہماری منزل ایک ہے یعنی افغانستان کا امن و استحکام، جبکہ انہوں نے کہا کہ پاکستان سے شراکت داری صرف افغانستان تک محدود نہیں، یہ تعلقات افغانستان سے آگے جائیں گے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکا کا کہنا ہے کہ افغانستان سے انخلا 31 اگست تک مکمل ہوجائے گا لیکن خطے اور پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف تعلق رکھنا چاہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک دلچسپ تبدیلی دیکھ رہا ہوں، بین الاقوامی کردار اس بات پر قائل ہو چکے ہیں کہ افغانستان کا فوجی حل نہیں، یہی عمران خان نے کہا تو انہیں طالبان خان کہا گیا، یہ ہمارے نقطہ نظر کی کامیابی ہے اور آج دنیا بھی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ واحد حل امن اور مفاہمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کی اب سوچ ہے کہ امریکا کا مشن مکمل ہوگیا، افغانستان سے انخلا کے فیصلے پر سیاسی اتفاق رائے ہے، امریکا کہتا ہے کہ محفوظ انخلا ہماری ترجیح ہے اور ہم نے اپنا مقصد حاصل کر لیا، پاکستان کہتا ہے کہ انخلا کریں لیکن منظم طریقے سے کریں تاکہ وہاں خلا پیدا نہ ہو اور منفی قوت فائدہ نہ اٹھائے۔

‘امریکا کہتا ہے افغانستان میں اس کا مقصد پورا ہوگیا’

وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا کہتا تھا ہمارا مقصد تنظیموں کو کمزور کرنا تھا تاکہ وہ امریکا کو نشانہ نہ بنا سکیں، صدر جو بائیڈن کے مطابق یہ مقصد ان دہشت گردوں کو نشانہ بنانا تھا جنہوں نے نائن الیون کیا، اب امریکا کہتا ہے کہ اس نے دہشت گرد تنظیموں کو کمزور کر دیا ہے جبکہ افغانستان میں قوم کی تعمیر یا جمہوریت کا جھنڈا گاڑنے نہیں گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کہتا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانوں نے کرنا ہے، یہی ہم بھی کہتے ہیں، طالبان یورپی تو نہیں افغان ہیں، یہ پاکستان کی ریاست کا مفاد ہے، امریکا کہتا ہے افغانستان میں سیکیورٹی معاونت جاری رکھیں گے، افغان ایئر فورس کی سیکیورٹی یقینی بنائیں گے اور شہریوں کی معاونت جاری رکھیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا کہتا ہے کہ افغان خواتین کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے، افغانستان میں سفارتی موجودگی رکھیں گے، اسے فوری طور پر کابل پر قبضہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا اور اس کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی ساتھیوں کو اعتماد میں لیں گے اور کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی یقینی بنائیں گے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکا کہتا ہے کہ ایک مذاکراتی حل کی طرف آگے بڑھیں، یہی پاکستان کہتا ہے، مجھے امریکی سیکریٹری خارجہ کی ٹیلی فون کال متوقع ہے، ان کے سامنے پاکستان کا نقطہ نظر پیش کروں گا۔

اس موقع پر کمیٹی کے رکن و مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہد حسین سید نے کہا کہ سابق دہشت گرد امریکا کا دفاع کر رہے ہیں۔

اس پر وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گردی کا خطرہ افغانستان سے باہر نکل گیا ہے، امریکا کہتا ہے کہ افغانستان کو نیوٹرل کر لیا لیکن اسے ایسے تین علاقے نظر آرہے ہیں جہاں سے دہشت گردی پنپ سکتی ہے، وہ مشرق وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا ہے، امریکا کہتا ہے کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں گے تاکہ خطرہ ہو تو فوری اور فیصلہ کن کارروائی کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کہتا ہے کہ ہمارا چیلنج چین کے ساتھ اسٹریٹجک مقابلہ کرنا ہے، یہ امریکا کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا، اس تناظر میں پاکستان نے کردار ادا کرنا ہے، دنیا سے لاتعلق نہیں رہ سکتے، رابطے میں رہنا ہے۔

‘ہم اکیلے افغانستان کے ٹھیکیدار نہیں’

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے قیمت ادا کی ہے، دیکھنا ہے مستقبل میں چیلنجز کا کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں، اگر افغانستان 1990 کی دہائی کی طرف جاتا ہے تو پاکستان پر پناہ گزین کا دباؤ پڑے گا، امریکا نے افغانستان میں 20 سال جن پر سرمایہ کاری کی ان میں مقابلہ کرنے کا دم خم نہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم غیر قانونی کراسنگ چیک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، سرحد پر باڑ لگا رہے ہیں، ہم نے ماضی میں ازبک، تاجر، ہزارہ پر توجہ نہیں دی تھی لیکن گزشتہ چھ ماہ میں ان سے ملاقاتیں کی ہیں، وہ سیکیورٹی حکام، وزیر اعظم اور مجھ سے ملے تاکہ واضح کریں کہ ہمارا افغانستان میں کوئی پسندیدہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان سے متعلق ہماری حکومت کی پالیسی واضح ہے، ہم وہاں امن و استحکام چاہتے ہیں اور ماضی کی غلطیاں دہرانا نہیں چاہتے۔

ان کا کہنا تھا کہ کل تاجکستان اور ازبکستان روانہ ہو رہا ہوں، وہاں افغان مسئلے پر اہم کانفرس میں کئی ممالک شریک ہوں گے، ہم معذرت خواہانہ رویہ ہرگز نہیں اپنائیں گے اور امن قائم کرنے والوں کا ساتھ دیں گے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم اکیلے افغانستان کے ٹھیکیدار نہیں، دوٹوک اور ڈٹ کر بات کریں گے، افغانستان کی صورتحال سنگین ہو رہی ہے لیکن اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا جائز نہیں۔

‘طالبان انتہائی ذہین اور قابل لوگ ہیں’

انہوں نے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی طالبان کے ساتھ بیٹھے کو تیار ہیں لیکن طالبان کو اشرف غنی پر اعتراضات ہیں، طالبان کا لباس سادہ لیکن وہ انتہائی ذہین اور قابل لوگ ہیں، طالبان اب بہت سمجھدار ہوگئے ہیں، انہیں ہر چیز کا ادراک ہے، طالبان دوحہ مذاکرات کے بعد بدل چکے ہیں اور پاکستان کو نئی بدلتی صورتحال کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت، افغان امن عمل کو خراب کر رہا ہے کیونکہ افغانستان میں شورش اس کے مفاد میں ہے، بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں عدم استحکام رہے، اس بارے میں امریکا، یورپ و دیگر ممالک کو آگاہ کر چکے ہیں، جنہوں نے افغان جنگ سے اربوں ڈالر کمائے تو وہ کیوں امن قائم کریں گے۔

‘خانہ جنگی سے بچنے کیلئے پاور شیئرنگ کی تجویز’
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان، افغانستان میں خانہ جنگی سے بچنے کے لیے پاور شئیرنگ کی تجویز دے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان محدود وسائل کے اندر مہاجرین کو سنبھال رہا ہے لیکن مزید مہاجرین کو نہیں سنبھال سکتے اس لیے وہ وہی رہیں یہاں نہ آئیں، ہم چاہتے ہیں یہاں آنے والے 30 لاکھ مہاجرین واپس اپنے وطن جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی سوچ حاوی ہونے پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو تقویت مل سکتی ہے، ٹی ٹی پی مضبوط ہوگی تو پاکستان کو نقصان ہوگا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ترکی بھی افغانستان میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، استنبول پراسیس میں افغان امن عمل کے حوالے سے اچھے اقدامات اٹھائے گئے، ایران کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہوگئے ہیں، سرحدوں پر جھڑپوں کے بجائے تجارتی مارکیٹیں کھل گئی ہیں۔

افغانستان کی صورتحال پاکستان کے قابو سے باہر ہے، مشیر قومی سلامتی

قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں حالات بہت خراب ہیں اور صورتحال ہمارے قابو سے باہر ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت، پاکستان کے مستقبل بارے بہت پریشان ہے، خطے میں بہترین روابط کے لیے افغانستان میں امن ضروری ہے، افغانستان میں شورش سے پاکستان بہت متاثر ہوگا، امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کا زیادہ نقصان پاکستان کو ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے باڑ لگا کر بارڈر کراسنگ پر مؤثر نگرانی شروع کردی ہے، افغانیوں کے لیے آن لائن ویزا اسٹریم لائن کردیا ہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، فوج اور خفیہ ایجنسیاں مستعدی سے کام کر رہے ہیں۔

معید یوسف نے کہا کہ افغان حکومت اگر امن چاہتی ہے تو پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے، افغانستان کے لیے کوئی امریکی معاشی پیکج نظر نہیں آرہا، صرف پاکستان ہی افغانستان کو تجارتی راہداری فراہم کر سکتا ہے جبکہ یو این ایچ سی آر متوقع افغان مہاجرین کے لیے کیمپ قائم کرے۔

‘بھارت، طالبان کی گلگت میں موجودگی کی پروپیگنڈا ویڈیو پھیلا رہا ہے’

کمیٹی رکن مشاہد حسین سید نے سوال کیا کہ کیا گلگت بلتستان میں طالبان آگئے ہیں؟

مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ بھارت پروپیگنڈا ویڈیو بنا کر پھیلا رہا ہے، طالبان کی گلگت بلتستان میں کوئی منظم موجودگی نہیں ہے، بھارت ایسے پاکستان مخالف پروپیگنڈا کو مالی معاونت فراہم کر رہا ہے، تاہم ایجنسیوں نے کافی گرفتاریاں کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی، مہاجرین کی شکل میں پاکستان میں حملے کر سکتے ہیں اور دہشت گرد، مہاجرین کے بھیس میں پاکستان میں آسکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں