سعودی عرب نے ایران کی جوہری سرگرمیوں میں اضافے کو خطے میں سیکیورٹی رسک قرار دیدیا

ریاض (ڈیلی اردو) سعودی عرب نے ایران کی جوہری سرگرمیوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق سعودی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے ایران کی جوہری سرگرمیوں میں اضافے کو خطے میں سیکیورٹی رسک قرار دیا ہے۔

سعودی عرب کی جانب سے مذکورہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب حالیہ دنوں میں تہران نے یورینیم کی افزودگی کے عمل کو جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے جوہری پروگرام کے نگراں ادارے نے بھی واضح کیا تھا کہ ایران نے افزودگی کا عمل شروع کردیا ہے جو تہران کو جوہری ہتھیار بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

اس ضمن میں امریکا اور یورپی ممالک نے تہران کے فیصلے اور عمل پر کڑی تنقید کی ہے۔

ایران نے دعویٰ کیا کہ یورینیم کی افزودگی کا مقصد جوہری ہتھیار کی تیاری نہیں ہے بلکہ ریسرچ ری ایکٹر کو ایندھن فراہم کرنے کی کوشش ہے۔

سعودی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ریاض، ایران کی جوہری سرگرمیوں کی بڑھتی ہوئی رفتار اور صلاحیتوں پر بہت فکر مند ہے جو پرامن مقاصد کے لیے نہیں ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ ایران کی 60 فیصد فیسائل پیوریٹی اور 20 فیصد تک یورینیم دھات تیار کرنے کے اقدامات علاقائی سلامتی اور اسلحہ کے پھیلاؤ کے لیے خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یورینیم افزودگی ’ایک جامع ایٹمی معاہدے کے حصول کے لیے کوششوں میں رکاوٹ ہے جو عالمی اور علاقائی سلامتی استحکام کو یقینی بناتا ہے‘۔

واضح رہے کہ 8 مئی 2018 کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے چین، روس، برطانیہ، جرمنی سمیت عالمی طاقتوں کے ہمراہ سابق صدر باراک اوباما کی جانب سے کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔

5 مارچ 2019 کو اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ادارے نے کہا تھا کہ ایران 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ہوئے جوہری معاہدے کی تعمیل کررہا ہے اور مزید ہتھیاروں کی تیاری سے گریز کرنے پر کاربند ہے۔

یاد رہے کہ 2015 میں اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے دیگر عالمی طاقتوں بشمول برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا کے مابین ویانا میں ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق طے پانے والے ایک معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔

ایران نے بھی اس معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ ایران بلیسٹک میزائل بنانے کے تمام پروگرام بند کردے گا اور اس معاہدے کے متبادل کے طور پر ایران پر لگائی گئی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی اور اسے امداد کے لیے اربوں روپے حاصل ہوسکیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں