امریکی فوج کے اعلیٰ کمانڈر جنرل ملر افغانستان میں اپنی ذمہ داری سے الگ ہو گئے

کابل (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان میں امریکی فوج کے اعلیٰ ترین کمانڈر نے پیر کے روز کابل میں ایک تقریب کے دوران اپنا عہدہ چھوڑ دیا جس سے امریکہ اس ملک میں اپنی 20 سالہ جنگ کو ختم کرنے کے مزید قریب ہو گیا ہے۔

فورسٹار جنرل سکاٹ ملر اپنے عہدے سے ایک ایسے موقع پر الگ ہوئے ہیں جب طالبان ملک بھر میں تیزی سے پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

وائس آف امریکہ کی نمائندہ کارلا بیب نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جنرل سکاٹ ملر کا افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کے کمانڈر کی ذمہ داری سے علیحدہ ہونا امریکی فوجی انخلاٗ کا علامتی اختتام ہے۔

جنرل ملر نے کابل کے امریکی فوجی ہیڈ کوارٹر میں ایک مختصر تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘افغانستان کے عوام ساری زندگی میرے دل اور دماغ میں رہیں گے’

جنرل ملر کے عہدہ چھوڑنےکی تقریب کابل کے انتہائی حفاظتی علاقے میں قائم ریزولیوٹ سپورٹ ہیڈکوارٹرز میں منعقد ہوئی۔

ملر نے اپنی زمہ داری سے سبکدوش ہونے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان امریکی، اتحادی افواج، اور افغان عوام کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘ان کی قربانیوں کو یاد رکھنا ہمارا کام ہے’۔

جنرل سکاٹ ملر نے سن 2018 سے افغانستان میں امریکہ کے اعلیٰ ترین کمانڈر کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دی ہیں۔ اب باقی ماندہ ایام کے لیے افغانستان میں رہ جانے والی امریکی فوج کی کمان امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ مرین جنرل فرینک میک کینزی کو منتقل ہو گئی ہے۔ جنرل فرینک میکنزی پیر کی صبح کابل پہنچے، جہاں انہوں نے افغانستان میں موجود امریکی فوج کی کمان سنبھالی۔

جنرل میکنزی فلوریڈا کے شہر ٹمپا میں سینٹرل کمانڈ کے ہیڈکوارٹرز سے افغانستان کے معاملات کی نگرانی کریں گے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے مطابق، امریکی فوج کا 90 فی صد انخلا مکمل ہو چکا ہے۔ زیادہ تر امریکی فوج اپنے ضروری سازو سامان کے ساتھ افغانستان سے نکل چکی ہے۔ جبکہ ایک ہزار سے بھی کم فوجی امریکی سفارتخانے اور کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی حفاظت کے لئے کابل میں موجود ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق افغانستان نیشنل ڈیفنس اور سیکیورٹی فورسز نے، جنہیں زیادہ تر فنڈز امریکہ اور نیٹو کی جانب سے فراہم کیے جاتے ہیں، بعض مقامات پر طالبان کے آگے بڑھنے کی راہ میں مزاحمت کی ہے، لیکن زیادہ تر علاقوں میں کابل حکومت کی فورسز نے لڑنے سے اجتناب کیا اور میدان خالی چھوڑ دیا۔

حالیہ ہفتوں میں طالبان نے سٹرٹیجک اہمیت کے کئی اضلاع پر فتح حاصل کی ہے، خاص طور پر ان اضلاع پر جو ایران، ازبکستان اور تاجکستان کی سرحدوں پر واقع ہیں۔

افغانستان کے کل 421 اضلاع میں سے ایک تہائی سے زیادہ کا کنٹرول اس وقت طالبان کے پاس ہے، جب کہ طالبان یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کا تسلط ملک کے 85 فی صد حصے پر قائم ہو چکا ہے۔ اس دعوے کو زیادہ تر حقیقت سے بعید تصور کیا جا رہا ہے۔

جنرل ملر کے بعد کابل میں قائم امریکی سفارت خانے میں تعینات ایک ایڈمرل افغانستان میں امریکی سفارتی موجودگی کے تحفظ اور کابل ایئرپورٹ کے دفاع کے امور کی نگرانی کریں گے۔

جنرل ملر کے اپنا عہدہ چھوڑنے سے افغانستان میں امریکی فوجی مشن کی سطح میں کمی نہیں آئے گی، کیونکہ ان کے اختیارات جنرل میک کینزی کو منتقل ہو جائیں گے اور وہ بعض حالات میں افغانستان کی سرکاری فورسز کے دفاع میں فضائی کارروائیاں کر سکیں گے۔

تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ کس طرح کی صورت حال میں فضائی کارروائیاں کی جائیں گی اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ فضائی آپریشز کا اختیار کب تک جنرل میک کینزی کے پاس رہے گا۔

فروری 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے ایک سمجھوتے میں طالبان نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ اور نیٹو کے فوجیوں پر حملے نہیں کریں گے۔ طالبان نے بظاہر اپنے اس عہد پر زیادہ تر عمل کیا ہے۔

اگرچہ واشنگٹن نے ابھی تک اس بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ اس کے کتنے فوجی افغانستان میں باقی رہیں گے۔ تاہم، سینٹ کام کے تقریباً ایک ہفتہ پہلے کے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ فوجی انخلا کا 90 فی صد کام مکمل ہو چکا ہے۔

صدر بائیڈن نے ایک بار پھر یہ کہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں انسانی ہمدردی کے امور میں اپنی معاونت جاری رکھے گا اور وہ سن 2024 تک افغان سیکیورٹی فورسز کے لیے سالانہ 4 ارب 40 کروڑ ڈالر کے فنڈز مہیا کرے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں