ازبکستان کانفرنس: افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان پر 10 ہزار جنگجو بھیجنے کا الزام لگا دیا

تاشقند (ڈیلی اردو/بی بی سی) آخر کار تیز اور تند لفظوں اور الزامات کی وہ جنگ جو افغانستان سے اتحادی فوجوں کے انخلا اور وہاں پر طالبان کی کارروائیوں کے بعد شروع ہوئی تھی وہ گلیوں اور سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی دونوں ملکوں کی اعلیٰ ترین شخصیات کی زبانوں تک پہنچ گئی۔

جمعے کو ازبکستان کے شہر تاشقند میں صورتحال میں اس وقت کشیدگی عود آئی جب افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ دس ہزار جنگجو اس کی سرحد عبور کر کے افغانستان میں آئے ہیں تاہم پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور کانفرنس میں موجود پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید نے اشرف غنی کے الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔

افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے دونوں ملکوں کے عوام اور سرکاری حلقوں کے مابین الفاظ کی جنگ جاری ہے اور افغانستان کی جانب سے پاکستان پر مسلسل طالبان کی حمایت کرنے کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔

افغانستان کے مختلف شہروں میں افغان طالبان کی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے جہاں سے موصولہ خبروں کے مطابق ایک سو سے زیادہ شہروں میں ان کے قبضے سے پہلے افغان سیکورٹی فورسز نے ہتھیار پھینک کر شہر طالبان کے حوالے کیے ہیں اور ان کی جانب سے کوئی مزاحمت سامنے نہیں آئی۔

جمعرات کو ہی افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے سابق سربراہ اور ملک کے نائب صدر امراللہ صالح نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ ’اس (پاکستان) کی فضائیہ نے یہ پیغام دیا ہے کہ اگر چمن بارڈر کے قریب أفغانستان کی حدود میں ان طالبان کے خلاف کارروائی کی گئی جنہوں نے سپین بولدک پر قبضہ کیا ہے تو اس کا پاکستان کی جانب سے جواب دیا جائے گا۔‘

تاہم پاکستان کی دفتر خارجہ نے جمعے کو ہی ایک بیان میں ایسے کسی پیغام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان کے بعض حکام دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کے لیے جھوٹ پر مبنی بیانات جاری کر رہے ہیں حالانکہ پاکستان نے کل ہی سپین بولدک پر طالبان کے حملے کے دوران وہاں سے فرار ہو کر پاکستان پہنچنے والے چالیس افسروں اور اہلکاروں کو واپس افغانستان پہنچایا ہے۔

اس ساری صورتحال میں ازبکستان کے شہر تاشقند میں وسطی جنوبی ایشیائی رابطہ کانفرنس جاری ہے جس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ اس نے دس ہزار جنگجو أفغانستان بھیجے ہیں اور اگر بات چیت نہ ہوئی تو افغان حکومت طالبان کا مقابلہ کرے گی کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ امن کے لیے آخری کوشش ہے۔

کانفرنس میں موجود پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اشرف غنی کے الزامات کو بے بنیاد کہا اور کہا کہ افغانستان کی صورتحال کے لیے پاکستان کو ذمے دار ٹھہرانا ناانصافی ہے کیونکہ دنیا میں اگر افغان امن کے لیے کوئی ملک کوشش کر رہا ہے تو وہ پاکستان ہے جس کے لیے اس نے سب سے زیادہ قربانیاں بھی دی ہیں۔

عمران خان نے اشرف غنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جب پاکستان کہہ رہا تھا کہ طالبان سے بات چیت کریں تو اس وقت ایسا نہیں کیا گیا اوراب جب طالبان فتح کے قریب پہنچ چکے ہیں تو بات چیت کی باتیں کی جا رہی ہیں۔‘

پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید بھی تاشقند میں موجود تھے جنہوں نے میڈیا سے غیر رسمی بات چیت میں کہا کہ ’پاکستان افغانستان میں کسی دھڑے کی حمایت نہیں کر رہا اور چاہتا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرکے مسئلے کا حل نکالیں۔‘

ڈی جی آئی ایس آئی کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں دراندازی نہیں کر رہا بلکہ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دراندازی ہو رہی ہے۔

دوسری جانب پاکستان میں کل ہفتے کے روز سے شروع ہونے والی امن کانفرنس بھی افغانستان کی درخواست پر ملتوی کی گئی ہے جس میں افغانستان کے اہم ترین رہنماؤں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، سابق صدر حامد کرزئی، گلبدین حکمت یار، احمد ولی مسعود، نائب صدر احمد ضیا مسعود اور دیگر نے شرکت کرنی تھی۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ تین روزہ کانفرنس افغانستان کی درخواست پر ملتوی کی گئی ہے جو اب شاید عید کے بعد کسی وقت ہو۔ پاکستانی حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس کانفرنس میں افغان طالبان کو دعوت نہیں دی گئی تھی۔

کانفرنس میں موجود پاکستانی صحافی رشید صافی نے بی بی سی کو بتایا کہ افغان صدر اشرف غنی کے پاکستان پر الزامات کے دوران ماحول میں تبدیلی آئی تاہم وزیراعظم عمران خان نے انھیں کہا کہ افغانستان اپنی سلامتی کو لاحق خطرات کو خود اندرونی طور پر حل کرے کیونکہ پاکستان پر الزام لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔

رشید صافی کا کہنا تھا کہ اس کے بعد پاکستان اور افغانستان کے رہنماؤں کی ملاقات بھی ہوئی جس میں اشرف غنی کے ہمراہ حنیف اتمر اور عمران خان کے ساتھ شاہ محمود قریشی، معید یوسف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں ازبکستان کے صدر جبکہ سعودی، چینی، بھارتی و روسی وزرائے خارجہ سمیت وسطی ایشیا کی حکومتوں کے رہنما شریک تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں