آرمی پبلک سکول پر حملہ پاک فوج نے”خود” کروایا تھا، احسان اللہ احسان

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے سینٹرم میڈیا (ٹی سی ایم) کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ فوج نے خود کروایا تھاـ

گزشتہ روز انٹرویو پبلش ہونے کے بعد احسان اللہ احسان نے ایک فیس بک پوسٹ میں ٹی سی ایم پر صحافتی خیانت کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ان کے انٹرویو کے اس حصے کو سنسر کیا گیا ہے جس میں انہوں نے آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے میں آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کا ذکر کیا تھا۔

ٹی سی ایم کو دیئے گئے انٹرویو جس میں کٹائی کی گئی ہے:

ٹی سی ایم کے شائع کردہ انٹرویو میں کیا ہے؟

ٹی سی ایم نے گزشتہ شام احسان اللہ احسان کا جو انٹرویو شائع کیا تھا اس میں کچھ جگہوں پر ان کی آواز کو میوٹ جبکہ ایک جگہ پر بیف لگائی گئی ہے جو احسان اللہ احسان کے دعوے کو سچ ثابت کر رہی ہے کہ ان کے انٹرویو کو کانٹ چھانٹ کرکے نشر کیا گیا ہے۔

تا ہم آج احسان اللہ احسان نے اپنے اکاؤنٹ پر سینٹرم میڈیا کو دیا گیا پورا جواب جاری کیا جس کو تحریری شکل مین پیش کیا جا رہا ہے۔

فیس بک پر شائع ہونے والا مکمل انٹرویو

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=122490400081588&id=100069618863415

یوٹیوب پر شائع ہونا والا احسان اللہ احسان کا اے پی ایس سے متعلق جواب:

احسان اللہ اللہ نے کہا ہے کہ ”میں نائن الیون اور ممبئ حملوں کے حوالے سے زیادہ حقائق نہیں جانتا کہ وہ کتنے ان سائیڈ جاب تھے یا وہ کتنے آؤٹ سائیڈ جاب، مگر آرمی پبلک سکول حوالے سے ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ وہ پاکستان آرمی کی ان سائیڈ جاب ہی تھی اور پاکستانی فوج نے ہی وہ حملہ کروایا تھا گو کہ اس حملے میں پاکستانی طالبان کے ایک کمانڈر کو استعمال کیا گیا تھاـ

اس حملے کو سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ٹی ٹی پی کس طرح حملے کرواتی ہے یا کس طرح اپریٹ کرتی ہے؟ـ طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے سلیپر سیلز جو شہری علاقوں میں ہوتے ہیں وہ اہداف کا تعین کرتے ہیں اور ان اہداف کے حصول کیلئے منصوبہ بناتے ہیں، منصوبہ بنانے کے بعد وہ مرکز کی طرف بھیجتے ہیں، مرکز اس کو اپروول دیتا ہے اور اس کے لیے وسائل وغیرہ فراہم کرکے حملہ سر انجام دیتا ہےـ

کچھ حملے مرکز کی طرف سے بھی اہداف دیکر کروائے جاتے ہیں مگر زیادہ تر تقریبا 80 فیصد حملے وہ سلیپر سیلز جو مقامی طور پر موجود ہوتے ہیں، کرواتے ہیں تو یہ حملہ بھی ایک مقامی بندے نے جو ٹی ٹی پی کیساتھ کام کرتا تھا، نے منصوبہ بنا کر مرکز کی طرف بھیجا تھا اور اس نے بتایا تھا کہ میں آرمی پبلک سکول کے نام سے ایک فوجی سکول جس میں آرمی افسران کے بچے پڑھتے ہیں اس پر حملہ کرکے ہم اس کو یرغمال بناتے ہیں اور اپنے قیدی چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس نیت سے انہوں نے (درہ آدم خیل کے امیر) کمانڈر خلیفہ عمر منصور کو اپنا منصوبہ بھیجا جنہوں نے اس کو اپروول دیا اور اس حملے کی اجازت دے دی، یہ حملہ دراصل ایک ریٹائر بریگیڈئیر کی طرف سے ڈیزائن کیا گیا تھا جو آئی ایس آئی کے ساتھ کام کر رہا تھا مگر ہم سب کو پتہ ہے کہ انٹیلیجنس اداروں کے افسران ریٹائرڈ ہوکر بھی ادارے کے لیے ہی کام کرتے ہیں۔

جب منصوبہ آیا تو عمر منصور نے اس پر عمل درآمد کے لیے وسائل مقامی بندے کو فراہم کئے اور وہ حملہ ہوگیا لیکن حملہ کا ہدف کسی کو مارنا نہیں تھا بلکہ وہ وہاں بچوں کو یرغمال بنانا تھا اور اس طریقے سے اپنے قیدی چھڑانا تھا اور جو معلومات دی گئی تھیں اس میں بتایا گیا کہ یہ آرمی افسران کے بچے ہیں۔

لیکن جب حملہ سر انجام پایا اور عمر منصور نے ٹی ٹی پی مرکز کی اجازت کے بغیر اس کی ذمہ داری قبول کی، بعد میں ترجمان نے بھی بامر مجبوری اس حملے کی حمایت کی مگر ٹی ٹی پی کے اندر اس حملے کے لیے قبولیت نہیں تھی، سب اس حملے کے خلاف تھے، بچوں کو مارنے کے حق میں کوئی بھی نہیں تھا۔

بعد میں جب ٹی ٹی پی نے اس بندے کو بلایا جس نے اس حملے کی منصوبہ بندی کی تھی اور منصوبہ اپنے کمانڈر تک پہنچایا تھا، ان سے تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ہے جس نے اس حملے کو ڈیزائن کیا ہے اور انہوں نے ہی اس حملے میں مقامی بندے کو مدد فراہم کی تھی ـ

اسکے بعد ٹی ٹی پی نے اس بندے کے خلاف ایکشن لیا جو اس حملے میں براہ راست ملوث تھاـ میری معلومات کے مطابق اس بندے کو قتل کر دیا گیا لیکن ٹی ٹی پی نے بدنامی سے بچنے کے لیے اس بات کو چھپایا تاکہ ان پر جو پریشر آرہا تھا وہ کم ہو سکے۔

یہ حملہ پاکستانی فوج کی خواہش پر ہی ہوا تھا لیکن ٹی ٹی پی کا ایک کمانڈر اپنی نادانی کی وجہ سے اس میں استعمال ہوا مگر سچ یہی ہے کہ اے پی ایس کا حملہ پاکستانی فوج نے ہی کروایا تھا۔

ایک پاکستانی فوجی جس کا نام مدثر اقبال ہے جو اے پی ایس حملے کے وقت اس فوجی دستے کا حصہ تھے اور جو وہاں پہنچے بھی تھے، اس نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا اور کہا کہ اس حملے میں جتنے بھی بچے مارے گئے تھے وہ پاک آرمی کے ان اہلکاروں نے مارے جو ان کو بچانے کے لیے سکول میں گئے تھے کیونکہ جو خودکش حملہ آور وہاں تھے انہیں وہاں موجود لوگوں کو یرغمال بنانے کی ہدایت کی گئی تھی، وہ سیکیورٹی گارڈز کو مار کر بچوں کو یرغمال بنانا ہی چاہتے تھے کہ آرمی نے ایکشن لیا اور ان بچون کو خود گولیاں ماری جتنا بھی قتل عام ہوا اس میں زیادہ لوگ فوجی اہلکاروں کی طرف سے ہی مارے گئے تھے۔

پشاور میں سنہ 2014 میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملے کے بارے میں حقائق معلوم کرنے کے لیے تشکیل پانے والے عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس واقعے کو سکیورٹی کی ناکامی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس واقعے نے ہمارے سکیورٹی نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے سات برس قبل پشاور میں آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کے حملے سے متعلق تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے عدالتی کمیشن کی رپورٹ عام کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہ کمیشن پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد ابراہیم خان پر مشتمل تھا اور اس نے 500 سے زائد صفحات پر مشتمل سانحہ آرمی پبلک سکول کی رپورٹ جولائی 2020 میں چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجی تھی۔

انکوائری کمیشن نے سکول کی سیکیورٹی پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں جبکہ دھمکیوں کے بعد سکیورٹی گارڈز کی تعداد میں کمی کے علاوہ درست مقامات پر عدم تعاون کی کمی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ آرمی پبلک سکول کی سکیورٹی کا انتظام فوج کے ذمے ہوتا ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدت پسند سکول کے عقب سے بغیر کسی مزاحمت کے داخل ہوئے۔

یہ تحقیقاتی کمیشن سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 2014 میں آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کے حملے میں مارے جانے والے طلبا اور اساتذہ کے والدین کی درخواست پر 2018 میں قائم کیا تھا۔

پشاور کے وارسک روڈ پر قائم آرمی پبلک سکول پر مسلح شدت پسندوں نے 16 دسمبر 2014 کو حملہ کر کے طلبہ، اساتذہ اور عملے کے ارکان کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے میں 147 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔

پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے والا گروپ 27 ارکان پر مشتمل تھا جس کے نو ارکان مارے گئے جبکہ 12 کو گرفتار کیا گیا تھا۔

پاکستانی حکام نے اس واقعے میں ملوث متعدد افراد کو فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلا کر سزا دی ہے تاہم ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کا مؤقف رہا ہے کہ ان کے بچے ایک چھاؤنی میں قائم فوج کے زیر انتظام سکول میں حصولِ تعلیم کے لیے گئے تھے وہ جنگ کے محاذ پر نہیں تھے اور یہ کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کی فیس سکول انتظامیہ کو باقاعدگی سے دیتے تھے تو پھر یہ واقعہ کیسے پیش آیا، کس کی ایما پر ہوا اور کس کی غفلت کا نتیجہ تھا؟

والدین کا یہی مطالبہ رہا ہے کہ اس سلسلے میں ذمہ داری کا تعین کیا جائے اور جن کی غفلت یا لاپرواہی سے یہ حملہ ہوا ہے انھیں سزا دی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں