پاکستان میں کون سے عسکریت پسند گروہ چینی مفادات کو نشانہ بناتے ہیں؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبه خیبرپختونخوا کے ضلع اپر کوہستان میں داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر کام کرنے والے چینی ورکرز کی ایک بس میں دھماکے کے واقعے کو پاکستانی اور چینی حکومتیں دہشت گردی کا واقعہ قرار دے رہی ہیں۔

البتہ ابھی تک کسی بھی عسکریت پسند گروہ کی جانب سے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی گئی۔

پاکستانی دفترِ خارجہ کے بیان کے مطابق 14 جولائی کو رونما ہونے والے حملے میں نو چینی شہری اور تین پاکستانی ہلاک ہوئے۔

یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال میں اسلام آباد اور بیجنگ بلوچستان سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں کئی ارب ڈالرز مالیت کی حامل چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے وابستہ سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں۔

سی پیک چین کے عالمی سطح پر جاری ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کو زمینی راستے سے گوادر کی بندرگاہ سے منسلک کرنا ہے جس سے چین کو بحیرۂ عرب تک رسائی حاصل ہونے میں آسانی ہو گی۔

سی پیک منصوبے کے تحت پاکستان میں نئی شاہراہیں اور بندرگاہیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔

داسو میں چین کے انجینئروں پر ہونے والا حملہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری یا باشندوں پر ہونے والا یہ پہلا حملہ نہیں ہے۔ البتہ سیکیورٹی ماہرین اسے بڑے حملوں میں سے ایک قرار دے رہے ہیں۔

اسلام آباد میں قائم پاک انسٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز نامی تھنک ٹینک کے سربراہ محمد عامر رانا کہتے ہیں کہ بلوچستان اور سندھ کے فعال کالعدم عسکریت پسند گروہ ملک میں چینی تنصیبات اور باشندوں پرحملے کرتے رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماضی میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور القاعدہ سے منسلک تنظیمیں جیسے ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ بھی چینی باشندوں کے قتل اور اغوا میں ملوث رہی ہیں۔

ان کے بقول، ’’جہاں جہاں چین یا سی پیک کے منصوبے چل رہے ہیں، وہاں کے مقامی جرائم پیشہ گروہ بھی سیکیورٹی کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔‘‘

بلوچ علیحدگی پسند گروہ

بلوچستان کی متعدد کالعدم علیحدگی پسند تنظیمیں صوبے میں سی پیک کی بھرپور مخالف ہیں اور ان منصوبوں پر مختلف مقامات پر حملوں کی ذمے داری بھی قبول کرتی رہی ہیں۔

ان تنظیموں کا مؤقف ہے کہ بلوچستان کی سر زمین اور اس کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کا منصوبہ ترک کیا جائے۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے مختلف ادوار میں متعدد بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)

بلوچستان کی سب سے بڑی علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) پر اپریل 2006 میں پابندی عائد کی گئی تھی۔

ستر کی دہائی میں ‘بی ایل اے’ کے نام سے عسکریت پسند گروہ کچھ برسوں تک فعال رہا تھا جب سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں بلوچستان میں ریاستِ پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی گئی تھی۔

البتہ فوجی آمر ضیاالحق کی جانب سے اقتدار سنبھالنے اور بلوچ قوم پرست رہنماؤں سے مذاکرات کے نتیجے میں مسلح بغاوت کے خاتمے کے بعد بی ایل اے بھی پس منظر میں چلی گئی۔

فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں شروع ہونے والی شورش میں بی ایل اے بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے بالاچ مری کی سربراہی میں دوبارہ فعال ہوئی جس کی کارروائیاں اب بھی جاری ہیں۔

نومبر 2007 میں بالاچ مری کے ایک مبینہ فوجی آپریشن کے دوران مارے جانے کے بعد گروہ کی قیادت برطانیہ میں مقیم ان کے بھائی حربیار مری کے ہاتھوں میں آ گئی۔

بی ایل اے بشیرزیب گروہ

البتہ حربیار مری کے برطانیہ میں رہنے اور مسلح تنظیم کو قبائلی طرز پر چلانے کے معاملے پر بی ایل اے میں اختلافات پیدا ہوئے اور تنظیم کے ایک مرکزی کمانڈر اسلم بلوچ عرف اچھو ایک دھڑے کے سربراہ بن گئے۔

اسلم اچھو کے دور میں ہی بی ایل اے میں مجید بریگیڈ کے نام سے ایک ذیلی گروہ کی جانب سے چینی باشندوں اور تنصیبات پر خود کش حملے بھی شروع کر دیے گئے جن کو تنظیم کی جانب سے فدائی حملے قرار دیا جاتا رہا۔

بی ایل اے کی جانب سے اگست 2018 میں سب سے پہلے جس خودکش حملے کی ذمے داری قبول کی گئی وہ خود اسلم بلوچ کے بیٹے نے ضلع چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبندین کے قریب کیا تھا جہاں ‘سیندک’ منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینئروں کی بس پرحملہ کیا گیا تھا۔

اس کے بعد بی ایل اے نے نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمے داری قبول کی۔

البتہ اس حملے کے بعد ہی افغانستان کے شہر قندھار کے پوش علاقے عینو مینہ میں ایک مبینہ خودکش حملے میں اسلم اچھو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہلاک ہوئے اور بی ایل اے کی قیادت بشیر زیب نے سنبھال لی ہے جو زمانہ طالبِ علمی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) آزاد کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔

بی ایل اے کے اسی دھڑے نے کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر بھی حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔

بلوچستان میں جاری شورش میں سب سے مضبوط اور منظم عسکریت پسند گروہ سمجھا جاتا ہے جس کی سربراہی بلوچستان کے قصبے مشکے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کر رہے ہیں جو زمانہ طالبِ علمی میں بی ایس او آزاد کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔

مارچ 2005 میں انہیں کراچی شہر سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عسکریت پسندی کے الزام میں گرفتار کر کے قید رکھا تھا اور رہائی کے بعد انہوں نے بی ایل ایف کی بنیاد رکھی جس کے بیشتر جنگجو بلوچستان کے مکران ریجن کے طلبہ اور نوجوانوں پر مشتمل ہیں۔

سن 2018 میں اللہ نذر بلوچ نے پاکستان میں چینی سفیر کے نام ایک کھلا خط بھی لکھا تھا جس میں چینی مفادات اور باشندوں بشمول سیاح اور مزدوروں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی۔

بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے)

نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمدغ بگٹی بلوچ ری پبلکن آرمی نامی عسکریت پسند گروہ کے سربراہ ہیں۔

براہمدغ بگٹی کے یورپ میں مقیم ہونے کی وجہ سے بی آر اے کو بھی ‘بی ایل اے’ کی طرح دھڑے بندی کا سامنا کرنا پڑا اور یوں گلزار امام نامی بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق رہنما کی قیادت میں بی آر اے کا ایک دھڑا فعال ہوا ہے۔

بی آر جی اور بی ایس او آزاد

بلوچ ری پبلکن گارڈز (بی آر جی) نامی عسکریت پسند تنظیم کے سربراہ بختیار ڈومکی ہیں جو 2008 کے عام انتخابات میں سبی سے رکنِ بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ وہ براہمداغ بگٹی کے بہنوئی ہیں۔

سن 2012 میں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں ان کی اہلیہ، بیٹی اور ڈرائیور کے قتل کے بعد انہوں نے ‘بی آر جی’ کے نام سے اپنا مسلح گروہ تشکیل دیا۔ یہ تنظیم ڈیرہ مراد جمالی، نصیر آباد، سبی آور ڈھاڈر میں سرگرم ہے۔

بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں فعال طلبہ تنظیم بی ایس او آزاد کو بھی حکومت کالعدم قرار دے چکی ہے۔ اس پر بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو افرادی قوت فراہم کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔

بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس)

پاکستان میں چین کے مفادات کو مشترکہ طور پر نشانہ بنانے کے لیے ایک برس قبل جولائی 2020 میں اللہ نذر بلوچ کی بی ایل ایف، بشیر زیب کی بی ایل اے، گلزار امام کی بی آر اے اور بختیار ڈومکی کی بی آر جی نامی چار تنظیموں نے بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) نامی مشترکہ محاذ تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں اس اتحاد میں سندھ کی ایک عسکریت پسند تنظیم سندھو دیش ریوولوشنری آرمی بھی شامل ہو گئی تھی۔

سندھی علیحدگی پسند گروہ

سندھ میں جئے سندھ تحریک سے وابستہ دھڑوں نے 2012 میں چین کے مالی تعاون سے ٹھٹھہ کے قریب ذوالفقار آباد نامی شہر کے قیام کے منصوبے کے بعد چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی پر امن مہم شروع کی تھی۔

البتہ شفیع برفت کی جئے سندھ متحدہ محاذ (جسمم) کی جانب سے چینی باشندوں کو نشانہ بنانے کے لیے سندھو دیش لبریشن آرمی (ایس ایل اے) نامی زیرِ زمین تنظیم بنائی گئی۔

بلوچ عسکریت پسندوں کی طرح شفیع برفت کے جرمنی میں مقیم ہونے کی وجہ سے ایس ایل اے بھی دھڑے بندی کا شکار ہوئی اور یوں سید اصغر شاہ کی سربراہی میں سندھو دیش ریولوشنری آرمی (ایس آر اے) تشکیل دی گئی۔

وفاقی وزراتِ داخلہ نے 2013 میں (جسمم) پر دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے سبب پابندی عائد کر دی جب کہ تقریباً سات برس بعد ‘ایس ایل اے’ کے ساتھ ساتھ ایک قوم پرست سیاسی تنظیم جئے سندھ قومی محاذ کے اریسر گروہ پربھی ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزامات کے سبب پابندی عائد کر دی گئی۔

خیال رہے کہ ایس آر اے چینی مفادات کو مشترکہ طور پر نقصان پہنچانے کے لیے بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے اتحاد ‘براس’ میں شامل ہوئی تھی۔

‘ایس ار اے’ نے 2013 میں کراچی میں چینی سفارت خانے کے باہر ایک دھماکے، 2016 میں کراچی کے علاقے گلشن حدید میں چینی انجینئر کی گاڑی کو نشانہ بنانے کے علاوہ سکھر کے قریب سی پیک منصوبے کے اہل کاروں پر حملے کی بھی ذمے داری قبول کی تھی جب کہ دسمبر 2020 میں کراچی شہر میں دو چینی باشندوں پر حملوں میں بھی حکام کی جانب سے ایس آر اے کو ملوث قرار دیا گیا تھا۔

چین کیلئے’خطرہ’ بننے والی تنظیمیں

چین کے کہنے پر پاکستان کی وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم)، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (ائی ایم یو) اور اسلامک جہاد یونین نامی تین بین الاقوامی تنظیموں پر بھی پاپندی عائد کی گئی ہے جن کے بارے میں بیجنگ الزام لگاتا رہا ہے کہ القاعدہ سے وابستہ یہ گروہ چین کے شمالی سرحدی صوبے سنکیانگ میں سرگرم ہے۔

سنکیانگ رقبے کے لحاظ سے چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں ایغور مسلمانوں کی اکثریت ہے جو کہ ناراض ہیں اور ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) ان کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے۔ افغان جہاد کے دوران (ای ٹی آئی ایم) اور دیگر گروہ افغانستان آ گئے تھے اور افغان طالبان نے بھی انہیں پناہ دی تھی۔

البته افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد (ای ٹی آئی ایم) پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل ہوئے جہاں ان کا الحاق القاعدہ اور آئی ایم یو سے ہوا۔ ‘ای ٹی آئی ایم’ کے کچھ رہنما پاکستان میں بھی فوجی کارروائیوں میں مارے گئے جن میں گروہ کے دو مرکزی رہنما حسن معصوم اور عبدالحق ترکستانی شامل ہیں۔

خیال رہے کہ امریکی حکومت نے چھ نومبر کو ای ٹی آئی ایم کو اپنی دہشت گرد گروہوں کی فہرست سے خارج کر دیا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان و القاعده

ٹی ٹی پی نے ماضی میں متعدد چینی شہریوں کو خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے صوبوں میں ہلاک اور اغوا کرنے کی ذمے داری قبول کی تھی۔

جولائی 2007 میں خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ سے تین چینی انجینئروں کو ہلاک کرنے کے بعد ٹی ٹی پی نے اسے چین میں اسی ماہ ای ٹی آئی ایم کے رہنما کو چین میں ہلاک کیے جانے کا بدلہ قرار دیا تھا۔

’آؤ چین کو پریشان کریں‘ کے عنوان سے سن 2014 میں ایک ویڈیو پیغام میں القاعدہ کے ایک بااثر نظریاتی اور پاکستانی شہری، مفتی ابوذر البرمی نے کہا تھا کہ امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد چین ’اگلا ہدف‘ بن جائے گا۔

انہوں نے تمام انتہا پسند گروہوں، بشمول ٹی ٹی پی کو ہدایات دیں تھیں کہ وہ چینی سفارت خانوں اور کمپنیوں پر حملے کریں اور چینی شہریوں کو اغوا یا ہلاک کریں۔

پاکستان میں سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے دھڑوں کے حالیہ دوبارہ ملاپ نے پاکستان میں چینی پشت پناہی والے منصوبوں کو لاحق خطرات میں اضافہ کر دیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں