کابل: طالبان ”سمجھوتہ‘‘ کیلئے تیار ہیں، روسی سفیر ضمیر کابلوف

ماسکو (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو/اے ایف پی/روئٹرز) روس نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد ملک کے بہت بڑے حصے پر قبضہ کرنے کے لیے حکومتی فورسز کے خلاف زبردست پیش قدمی کے باوجود طالبان سیاسی ‘سمجھوتہ‘ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد طالبان نے متعدد اضلاع اور سرحدی گزرگاہوں پر قبضہ کرنے کے ساتھ ہی صوبائی دارالحکومتوں کا محاصرہ بھی کر لیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی میدان جنگ میں عسکریت پسندوں کی مسلسل کامیابیوں کے درمیان امن مذاکرات کا حالیہ دور بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکا۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق افغانستان میں روس کے سفیر ضمیر کابلوف نے منگل کے روز سابق افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ طالبان دیگر فریقین کی طرف سے مذاکرات کی سیاسی پیشکش پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں۔

’طالبان جنگ سے تنگ آچکے ہیں‘

ضمیر کابلوف کا کہنا تھا،”گزشتہ بیس برسوں کے دوران طالبان قیادت کا ایک بہت بڑا حصہ یقیناً جنگ سے تنگ آچکا ہے اور یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی ہے کہ موجودہ تعطل کو ختم کرنے کے لیے سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کے حالیہ بیانات اور اقدامات کے مدنظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ”سیاسی مصالحت کے لیے تیار ہیں۔”

ضمیرکابلوف کا تاہم کہنا تھا کہ طالبان کے بیانیے سے یہ بات واضح ہے کہ ”سیاسی سمجھوتے کے معاملے کو ان کے سامنے شائستہ انداز میں پیش کیا جانا چاہئے۔”

کابلوف کا مزید کہنا تھا کہ روس کو اب تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ طالبان نے سرحد پار کرکے تاجکستان یا ازبکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی ہو۔

روسی سفیر کا بیان ایسے وقت آیا ہے جب طالبان اور افغان حکومت کے درمیان گزشتہ ہفتہ کے اختتام پر قطر میں ہونے والے مذاکرات کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئے تھے۔ حالانکہ یہ توقع کی جارہی تھی کہ اس کمزور امن مساعی میں جان پڑ جائے گی۔

افغانستان پر روس کی قریبی نگاہ

ماسکو افغانستان میں جاری تصادم اور بدلتے ہوئے سیاسی حالات پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

سابقہ سوویت یونین کی فوج نے سن 1979میں افغانستان پر قبضہ کرلیا تھا اور اس کے بعد ہونے والی دس سالہ جنگ کے دوران چودہ ہزار سے زائد سوویت فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

حالیہ برسوں کے دوران روس نے طالبان نمائندوں سے بات چیت کے لئے ماسکو میں کئی بار مذاکرات کی میزبانی کی ہے، جن میں سے ایک مذاکراتی دور رواں ماہ مکمل ہوا تھا۔

روس ان خدشات کا بھی جائزہ لے رہا ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام کا ہمسایہ وسط ایشیائی ملکوں پر کیااثرات ہوں گے، جو سابق سوویت یونین کا حصہ تھے اور جہاں روس کے اہم فوجی اڈے اب بھی موجود ہیں۔

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف یہ کہہ چکے ہیں کہ روس کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام سے دہشت گردی کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے اور منشیات کی اسمگلنگ میں تیزی آسکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں