افغان طالبان کی پیش قدمی کے تناظر میں تاجکستان میں بڑی جنگی مشقیں

کابل (ڈیلی اردو/روئٹرز/اے ایف پی/اے پی) پڑوسی ملک افغانستان میں بڑھتے عدم استحکام سے تاجکستان کی حکومت بھی پریشان ہے اور کسی غیر متوقع صورت حال سے نمٹنے کے لیے عسکری تیاریاں شروع کر دی ہیں۔

ایک ایسے وقت جب پڑوسی ملک افغانستان میں عسکریت پسند طالبان گروپ کی تیزی سے پیش قدمی جاری ہے، تاجکستان کی فوج نے 22 جولائی جمعرات کو بڑے پیمانے پر حربی مشقوں کی شروعات کی۔ اس مشق میں سوا دو لاکھ سے بھی زیادہ تاجک فوجیوں نے حصہ لیا۔

تاجکستان کے صدر امام علی رحمن کی درخواست پر دو لاکھ تیس ہزار سے بھی زیادہ تاجک فوجی جنگی مشق کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اس جنگی مشق میں متحرک فوجیوں کے علاوہ، ریزرو دستے، فضائیہ اور توپ خانوں کے دستوں نے بھی حصہ لیا۔

افغانستان میں عدم استحکام پر تاجکستان کی تشویش
تاجک صدر امام علی رحمن نے جمعرات کے روز ٹی وی پر اپنے خطاب کے دوران جنگی مشق کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، ”ہمارے پڑوسی ملک افغانستان، خاص طور پر اس کے شمالی علاقوں میں جو ہماری سرحد سے متصل ہیں، صورت حال مستقل غیر یقینی اور کافی پیچیدہ بنی ہوئی ہے۔”

ان کا مزید کہنا تھا، ”صورت حال دن بدن اور ہر لمحہ مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔” انہوں نے فوج سے سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تیار رہنے کو کہا۔ اس سے قبل انہوں نے افغان۔ تاجک سرحد پر 20 ہزار اضافی فوج تعینات کرنے کے احکامات دیے تھے۔

چند روز پہلے ہی کی بات ہے اسی سرحد پر طالبان کے ساتھ شدید لڑائی کے بعد کچھ افغان فورسز پناہ کے لیے تاجکستان میں داخل ہو گئے تھے جنہیں بعد میں طیارے کے ذریعہ کابل بھیجا گیا۔

حالیہ کچھ دنوں سے طالبان افغانستان میں تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں اور انہوں نے دفاعی نکتہ نظر سے اہم سرحدی گزر گاہوں پر اپنا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ طالبان،حکومتی فورسز کے خلاف یہ جیت اس وقت حاصل کر رہے ہیں جب امریکا اور نیٹو کے دوسرے اتحادی

ممالک افغانستان سے افواج کو مکمل طور پر واپس بلا رہے ہیں۔

طالبان کا بڑا دعوی

جمعرات کے روز ہی روسی میڈیا کے ساتھ بات چیت میں طالبان نے دعوی کیا کہ اس وقت افغانستان کے 90 فیصد حصے پر ان کا کنٹرول ہے۔ تاہم اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے روس کے ایک سرکاری میڈیا ادارے ‘آر آئی اے نووستی’ سے بات چیت میں کہا، ”تاجکستان، ترکمانستان اور ایران کے ساتھ افغانستان کی سرحدوں، یا یوں کہیں کہ 90 فیصد سرحدی علاقے ہمارے کنٹرول میں ہیں۔”

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے افغانستان میں اسی ماہ ایک سروے کیا تھا جس کے مطابق طالبان نے ملک کے نصف سے زیادہ تقریبا ً400 اضلاع پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ تاہم طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس تنازعے کا سیاسی حل چاہتے ہیں اور بات چیت جاری رکھیں گے۔

اطلاعات کے مطابق روس آئندہ ماہ ازبکستان اور تاجکستان کے ساتھ فوجی مشقیں کرنے والا ہے اور اس کے ساتھ تاجکستان میں وہ اپنے فوجی اڈے پر فوجیوں کی تعیناتی کا از سر نو جائزہ لے گا اور اس میں مزید فوجیوں کے ساتھ جنگی ساز و سامان میں اضافے کا امکان ہے۔

روس افغانستان سے امریکا کے فوجی انخلا کی مخالفت کرتا رہا ہے اور اس کے بقول اس اقدام سے خطے میں عدم استحکام میں اضافہ ہوگا۔

مغربی ممالک کے بعض مبصرین کا بھی کہنا ہے کہ جس طرح طالبان کی پیش قدمی جاری ہے بہت جلدی طالبان ملک پر قابض ہو سکتے ہیں اور پھر وہ اپنے پرانے طریقے سے حکومت کرنے کی کوشش کریں گے جس سے انسانی حقوق کی پامالی ہو سکتی ہے۔

امریکی صدر نے گزشتہ اپریل میں افغانستان سے گیارہ ستمبر تک مکمل انخلا ء کا اعلان کیا تھا اور اب تک تقریباً نوے فیصد امریکی فوج کا انخلا مکمل ہو چکا ہے۔ تاہم طالبان کی پیش قدمی سے طرح طرح کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ افغانستان ایک بار پھر طالبان کے ہاتھوں میں چلا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں