وفاقی حکومت کا پاکستانی نژاد قیدی مجاہد پرویز کو امریکا کے حوالے کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کی وفاقی حکومت نے مجاہد پرویز نامی شخص کو امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجاہد پرویز پر امریکہ میں غیر قانونی طور پر ادویات فروخت کرنے والے 16 سٹور چلانے کے علاوہ تین کروڑ امریکی ڈالر خرد برد کرنے کا الزام ہے اور وہ اس معاملے میں امریکہ کی عدالت کو مطلوب ہیں۔

مجاہد پرویز کو امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ منگل کے روز وفاقی کابینہ کی اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس کی صدارت وزیر اعظم عمران خان نے کی۔

کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس بات کی تصدیق کی کہ مجاہد پرویز کو امریکہ کے حوالے کیا جائے گا۔

اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے دور میں ملزم مجاہد پرویز کو امریکہ کے حوالے کرنے کا معاملہ دو مرتبہ کابینہ کے ایجنڈے پر لایا گیا لیکن اس معاملے کو کابینہ کے اجلاس میں زیر بحث نہیں لایا جا سکا۔

وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ملزم پر امریکہ میں قانون شکنی اور بدعنوانی کے الزامات ہیں اور ایڈشنل ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جو تحققیات سامنے آئی اس سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ الزامات حقائق پر مبنی ہیں۔

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کا موقف ہے کہ ملزم کو اسلام ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کیا ہوا ہے تاہم کابینہ کے اس فیصلے کے بعد اس کو حراست میں لینے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق ملزم مجاہد پرویز جب امریکہ میں مبینہ طور پر فراڈ کر کے پاکستان آیا تھا تو امریکہ نے اس کی حوالگی سے متعلق پاکستان کو ایک خط لکھا تھا۔

وزارت داخلہ نے اس معاملے کی تحققیقات کے لیے اسلام آباد کے ایڈشنل ڈپٹی کمشنر کو انکوائری افسر تعینات کیا تھا جنھوں نے اکتوبر سنہ 2015 میں ملزم کے وارنٹ گرفتاری جاری کر کے اسے گرفتار کر لیا اور بعدازاں اس کو اڈیالہ جیل میں منتقل کر دیا گیا۔

اس مقدمے سے منسلک ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار عبدالمجید کے مطابق ’اس معاملے میں جب تحقیقات کی گئیں تو ملزم پر الزام ثابت ہوا تھا اور ایک موقع پر ملزم کو امریکہ کے حوالے کرنے کے بارے میں فیصلہ کر لیا گیا تھا جس کے بارے میں وفاقی حکومت کو بھی آگاہ کر دیا گیا تھا۔‘

ملزم کی گرفتاری کے بعد امریکہ نے پاکستانی حکومت سے درخواست کی تھی کہ مجاہد پرویز کو اس وقت تک حراست میں رکھا جائے جب تک اسے امریکہ حوالے کرنے کا عمل مکمل نہیں ہو جاتا۔

سنہ2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج محسن اختر کیانی نے وزارت داخلہ کو ملزم مجاہد پرویز کو امریکہ کے حوالے کرنے سے روک دیا تھا۔

ان عدالتی احکامات کے بارے میں اڈیالہ جیل کے سپرنٹینڈنٹ کو فون کر کے مطلع کیا گیا تھا کیونکہ ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ حکومت نے ملزم کو امریکہ کے حوالے کرنے کے انتظامات مکمل کر لیے ہیں اور کسی بھی وقت انھیں امریکہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔

ایکسٹراڈیشن ایکٹ (کسی ملزم کو دوسرے ملک کے حوالے کرنے کا قانون) کے سیکشن 12 کے تحت کسی بھی ملزم کو حراست میں لیے جانے کے دو ماہ کے عرصے کے دوران اس ملک کے حوالے کرنا ضروری ہے جہاں کی عدالتوں یا قانون نافد کرنے والے اداروں کو وہ مطلوب ہو۔

72سالہ ملزم مجاہد پرویز ساڑھے چار سال سے زیادہ عرصے تک اڈیالہ جیل میں رہے اور پھر گزشتہ برس یعنی سنہ 2020 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج میاں گل حسن اورنگزیب نے طبی بنیادوں پر ملزم کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی۔

اس ضمانت کو منظور کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ وہ عدالت کو بتائے بغیر اسلام آباد کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے اور ہر دو ہفتوں کے بعد ایک مرتبہ وہ اسلام آباد کے ایڈشنل ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں بھی پیش ہوں گے۔

اس کے علاوہ عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ وہ ہر پیشی پر عدالت میں پیش ہوں گے۔ عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ اگر ملزم عدالتی احکامات کو نظر انداز کرے تو ایف آئی اے اور وزارت داخلہ ملزم کی ضمانت منسوخ کروانے کے لیے عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس معاملے کی سماعت کے دوران ایڈشنل اٹارنی جنرل نے امریکی سفارت خانے کی طرف سے بھیجی گئی ایک ای میل بھی پیش کی تھی جو انھوں نے گزشتہ برس اپریل میں ایف آئی اے اور وزارت داخلہ کے حکام کو لکھی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کورونا کی وجہ سے ملزم کی امریکہ منتقلی تاخیر کا شکار ہو سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں