کلبھوشن جادھو: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی تجویز دے دی

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی قانون و انصاف سے متعلق قائمہ کمیٹی کے متعدد ارکان نے انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کے لیے قانون سازی کی بجائے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی تجویز دے دی ہے۔

ان ارکان کا کہنا ہے کہ کلبھوشن جادھو ’دشمن ملک‘ سے ہے، اس کو نظرثانی کی درخواست کا حق دیا جا رہا ہے تو پاکستان کے جن لوگوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیں دی گئی ہیں ان کو کیوں یہ حق نہ دیا جائے۔

جن ارکان نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی تجویز دی ان میں سے اکثریت کا تعلق حزب مخِالف کی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز اور جمیعت علمائے پاکستان فضل الرحمن گروپ سے ہے۔

ایوان بالا کی قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کے بارے میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے پر غور کرنے اور مجرم کو نظر ثانی کا حق دینے کے بارے میں بدھ کے روز طلب کیا گیا تھا۔

وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم قائمہ کمیٹی کے ارکان کو اس معاملے پر بریفنگ دینے لگے تو کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ ان کے پاس تو کلبھوشن جادھو کے بارے میں انٹرنینشل کورٹ آف جسٹس کے فیصلے کی کاپی ہی موجود نہیں ہے تو پھر اس کو کیسے زیر بحث لایا جاسکتا ہے۔

ان ارکان کا کہنا تھا کہ جب تک وہ اس فیصلے کو پڑھیں گے نہیں تو وہ کیسے اس حوالے سے نظرثانی بل پر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔

عالمی عدالتِ انصاف

کمیٹی کے چیئرمین نے وفاقی وزیر قانون سے کہا کہ وہ پہلے ارکان کو اس مقدمے کے خدوحال کے بارے میں بتائیں جس پر فروغ نسیم نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ انڈین جاسوس کو تین مارچ سنہ 2016 میں گرفتار کیا گیا جبکہ پاکستان کی فوجی عدالت نے 10 اپریل سنہ 2017 کو جرم ثابت ہونے پر انڈین جاسوس کو موت کی سزا سنائی تھی۔

جبکہ اس فیصلے کے خلاف انڈین حکومت نے مئی سنہ2017 میں انٹرنیشل کورٹ آف جسٹس میں اپیل دائر کی تھی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور سابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے وفاقی وزیر قانون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انھیں کمیٹی کے ارکان کو مطمئن کرنا ہوگا کہ مجرم کو اپیل کا حق دینے کے لیے ایکٹ لانا کیوں ضروری ہے۔

انھوں نے کہا کہ آئی سی جے نے تو پاکستان کو پابند نہیں کیا کہ وہ اس حوالے سے قانون سازی کریں۔ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ اگر آئی سی جے کے فیصلے میں قانون سازی کے بارے میں کہا گیا ہے تو پھر ضرور قانون سازی کریں۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر قانون سازی کرنی ہے تو سب کے لیے کیوں نہیں؟ انھوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے پاکستانیوں کو یہ حق کیوں نہیں دیا جا رہا۔

اجلاس میں فاروق ایچ نائیک نے سوال اٹھایا کہ نظرثانی سے متعلق آرمی ایکٹ میں ترمیم کیوں نہ کی جائے؟ جس پر حکمراں جماعت کے سینیٹر اور وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ اس وقت آرمی ایکٹ میں ترمیم کا معاملہ نہ کھولا جائے۔

کمیٹی کے چیئرمین بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ‘اس قانون میں ایک غلطی نظر آ رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک دشمن ملک کا جاسوس جس نے اتنی دہشتگردی پھیلائی آپ اس کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں۔’

کمیٹی کے رکن اور جمیعت علمائے پاکستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کامران مرتضٰی کا کہنا تھا کہ دشمن ملک کے جاسوس کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں اپنے شہریوں کو یہ حق نہیں دیا جا رہا۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے ہیں۔ وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ حکومت کلبھوشن جادھو کو اپیل کا حق نہیں دے رہی اور اگر کمیٹی کے کچھ ارکان ایسا سمجھ رہے ہیں تو پھر انھوں نے یہ قانون پڑھا ہی نہیں جس پر سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ حکومت مجرم کو فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کا حق دینے کی کوشش کر رہی ہے اس لیے چپکے سے صدارتی آرڈیننس لایا گیا۔

حزب مخالف کی جماعتیں یہ الزام عائد کر رہی ہیں کہ یہ صدارتی آرڈیننس کلبھوشن جادھو کو مدد فراہم کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور سینیٹر مصدق ملک میں تکرار

پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے ارکان اس بات پر متفق ہیں کہ جو ایک کو حق دیا جا رہا ہے وہ سب کو دیا جائے۔

یہ سن کر وفاقی وزیر قانون غصے میں آگئے اور کہا کہ ایک ہی سوال کو بار بار نہ پوچھا جائے، جس پر ڈاکٹر مصدق نے کہا کہ کیا وہ اس معاملے پر بات نہ کریں اور اجلاس سے اٹھ کر چلیں جائیں۔ انھوں نے کہا کہ ارکان بات کریں گے اور حکومت کو یہ باتیں سننا ہوں گی۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ ایک ہی سوال بار بار نہیں سنا جائے گا جس پر ڈاکٹر مصدق نے کہا کہ وہ اس طرح کی ڈکٹیشن نہیں دے سکتے کیونکہ وہ کمیٹی کے چیئرمین نہیں ہے جس پر بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ اگر وہ چیئرمین نہیں ہیں تو ان کے ذاتی ملازم بھی نہیں۔

اس موقع پر کمیٹی کے رکن اور سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لیے مداخلت کی اور وزیر قانون سے سوال کیا کہ فرض کریں آئی سی جے کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرتے تو اس کا کیا اثر ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ کیا یہ درست نہیں کہ کچھ کیسوں میں آئی سی جے کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔

وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اس قانون پر عملدرآمد نہ ہوا تو انڈیا ہمارے خلاف آئی سی جے میں توہین عدالت کی درخواست لے کر چلا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا پاکستان کے خلاف سکیورٹی کونسل میں قرارداد بھی لاسکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت نے اس مقدمے کے حوالے سے جو اقدامات کیے ہیں اس کی وجہ سے انڈیا آج تک پاکستان کے خلاف کچھ نہیں کر سکا۔

قائمہ کمیٹی کے ارکان کے پاس آئی سی جے کے فیصلے کی کاپی نہ ہونے کے باعث بل پر آئندہ اجلاس میں بحث ہو گی۔ وفاقی وزیر قانون نے قائمہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس کو ان کیمرا کرنے کی درخواست کی ہے۔

واضح رہے کہ موجودہ حکومت نے آئی سی جے کے فیصلے کی روشنی میں انڈین جاسوس کو فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کر رکھی ہے جس پر عدالت نے حکومت کو اس حوالے سے انڈین حکومت کو خط لکھنے اور وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے بارے میں کہا۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید کے مطابق انڈین حکومت اس مقدمے کی پیروی کے لیے انڈین وکیل کو عدالت میں پیش کرنے پر بضد ہے تاہم اٹارنی جنرل کے مطابق پاکستانی قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں