لنڈی کوتل: سیکیورٹی فورسز کیخلاف قبائلی عوام سراپا احتجاج، پاک افغان شاہراہ بند

پشاور (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) پاکستان کے ضلع خیبر کی دو تحصیلوں، جمرود اور لنڈی کوتل میں سینکڑوں افراد نے سکیورٹی اداروں کے مبینہ سرچ آپریشن کے خلاف پاک افغان شاہراہ کو ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند کر دیا ہے۔

لنڈی کوتل اور جمرود کی آبادی تقریباً ایک لاکھ کے قریب ہے۔ ان دونوں تحصیلوں کے مختلف علاقوں میں گزشتہ چند دنوں سے مبینہ سرچ آپریشن جاری ہیں۔ آپریشن میں ایف سی اور پولیس کے اہلکار مبینہ طور پر حصہ لے رہے ہیں۔ ایک مقامی رہائشی نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو سرچ آپریشن کے بارے میں بتایا، ”اچانک وہ ہمارے گھر کے اندر داخل ہوگئے اور گھر والوں کو ایک کمرے کے اندر بند کیا۔ ہمارے گھر سے کوئی چیز نہیں لے کر گئے لیکن اس وقت قیامت سا سماں تھا۔‘‘

پچاس ہزار کے لگ بھگ آبادی والی تحصیل لنڈی کوتل کے تقریباً ہر گھر میں ڈر، خوف اور پریشانی کی صورتحال ہے۔ پیر نو اگست کی صبح، پاکستان کے سکیورٹی ادارے فرنٹیئر کانسٹیبلری اور پولیس نے مبینہ طور پر لنڈی کوتل تحصیل کے علاقہ خیبر کے مختلف گاؤں میں سرچ آپریشن شروع کر دیا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ آپریشن کے دوران ایف سی اہلکار بغیر کسی اطلاع کے گھروں میں داخل ہوئے اور وہ گھر کے مکینوں کو ایک کمرے میں بند رہنے کا کہہ رہے تھے۔

اس آپریشن میں ان کے ساتھ کوئی خاتون اہلکار موجود نہیں تھی جیسا کہ ماضی میں آپریشن کے دوران ہوا کرتی تھیں۔ پولیس والوں کو بھی ایف سی والے اپنے قریب نہیں آنے دیتے۔ مقامی عمائدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایف سی والے پولیس کے چند اہلکار اپنے ساتھ اس لیے لاتے ہیں تاکہ وہ یہ تاثر دے سکیں کہ سرچ آپریشن پولیس کر رہی ہے جو کہ آئینی اور قانونی طور پر پولیس کی ڈیوٹی ہے لیکن ایف سی اور دیگر سکیورٹی والے کسی قانون اور آئین کو نہ مانتے ہیں اور نہ وہ اپنے آپ کو آئین اور قانون کے پابند سمجھتے ہیں۔

چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال

لنڈی کوتل طورخم بارڈر سے سات کلومیٹر پر واقع ہے۔ یہاں شینواری اور آفریدی قبیلے آباد ہیں۔ ملک نثار آفریدی سیاسی اور سماجی کارکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”ہمیں منظم طریقے سے دہشت گرد ظاہر کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ ہم نہ دہشت گرد ہیں اور نہ ہی کرائے کے قاتل ہیں۔ سکیورٹی اور انتظامیہ ادارے دوبارہ کوشش کر رہے ہیں کہ حالات خراب کریں لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ ہم نے پاک افغان شاہراہ بند کی ہے اور تب تک اسے نہیں کھولیں گے جب تک ہمیں اس بات کی یقین دہانی نہ کرائی جائے کہ وہ دوبارہ ہماری چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال نہیں کریں گے۔‘‘

لنڈی کوتل میں گزشتہ دو دنوں سے غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے خلاف مختلف جگہوں میں آپریشن جاری ہے۔ جبکہ مقامی لوگ اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہیں۔

طورخم بارڈر کی صورتحال

پاک افغان شاہراہ زیادہ تر پاکستان اور افغانستان کے درمیان امپورٹ ایکسپورٹ مصنوعات کی ترسیل کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ گزشتہ چند مہینوں سے طورخم بارڈر کو کورونا کی وجہ سے بند کیا گیا ہے۔ طورخم بارڈر پر صرف افغانستان سے آنے والے مریضوں کے لیے پاکستان آنے کی اجازت ہے۔

شاکر آفریدی ٹرانسپورٹ یونین کے صدر اور سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ”ہم نے پاک افغان شاہراہ کو بند کیا ہے اور ہر بندہ تب تک احتجاج کرتا رہے گا جب تک سکیورٹی ادارے معافی نہ مانگیں اور وہ تمام اشیاء واپس نہ کریں جو وہ ہمارے گھروں سے لے کر گئے ہیں۔‘‘

جمرود میں سرچ آپریشن

سکیورٹی اداروں نے ضلع خیبر کی تحصیل جمرود میں بھی سرچ آپریشن شروع کیے ہیں۔ جمرود میں آفریدی قوم کا کوکی خیل قبیلہ آباد ہے جس کے نوجوانوں اور عمائدین نے باب خیبر کے مقام پر شاہراہ بند کرکے ایف سی کے سرچ آپریشن کے خلاف چند گھنٹے احتجاج کیا۔ بعد میں پولیس کی یقین دھانی پر احتجاج کو ختم کر دیا گیا۔ لیکن کوکی خیل قوم کے عمائدین نے یہ بات واضح کر دی کہ اگر سرچ آپریشنز ختم نہیں کیے گئے تو وہ سخت احتجاج کریں گے۔

ڈی ڈبلیو نے ڈپٹی کمشنر سے ان کے واٹس اپ نمبر پر موقف لینے کے لیے رابطہ کیا لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں