’’ہمیں خوف ہے کہ طالبان ہمیں پکڑ کر چین کے حوالے کر دیں گے‘‘، افغان اویغور برادری

کابل (ڈیلی اردو/بی بی سی) جب طالبان نے کابل پر تیزی سے قبضہ مکمل کیا تو مزارِ شریف کے ایک گھر میں کچھ لوگ خاموشی سے جمع ہوئے۔ مہمان ایک ایک دو دو کی ٹولیوں میں آئے تاکہ لوگوں کی توجہ ان کی جانب مرکوز نہ ہو۔

یہ اویغور برادری کے عمائدین تھے۔ ان کے ساتھ خاندان کے افراد بھی تھے اور کچھ لوگوں نے دوسرے شہروں سے سکائپ پر شرکت کی۔ گھر میں خوف کا ماحول تھا اور زیرِ بحث صرف ایک موضوع تھا: افغانستان سے فرار۔

ایک معمر شخص نے ترکی میں برادری کے کارکنان کو فون ملا کر مدد کی اپیل کرنا چاہی۔ پہلے شخص نے فون نہیں اٹھایا۔ دوسرے نے فون اٹھا کر کہا کہ اس سے جو ہو سکا وہ کرے گا مگر اس وقت اس کے بس میں کچھ نہیں۔

گھر میں موجود لوگوں نے فون کرنے والے سے کہا کہ وہ کال ملاتا رہے مگر کوئی اچھی خبر نہیں آئی۔ آخر شام کو مہمان اسی محتاط انداز میں وہاں سے روانہ ہوئے جس کے ساتھ وہ وہاں آئے تھے۔ وہ پہلے سے زیادہ پریشان تھے۔

اس ملاقات میں شریک ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت ہماری مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ ہم خوفزدہ ہیں۔ سب لوگ خوفزدہ ہیں۔‘

لاکھوں افغانوں کی طرح ملک کی اویغور برادری بھی اس ہفتے ایک نئی حقیقت کا سامنا کر رہی ہے۔ اب طالبان اقتدار میں ہیں۔ بہت سے افغانوں کی طرح اویغور برادری بھی طالبان کے زیرِ کنٹرول ملک میں خوفزدہ ہے مگر انھیں ایک اور خوف بھی ہے اور وہ ہے چین کے اثر و رسوخ کا خوف۔

چین میں تقریباً 12 ملین اویغور بستے ہیں جن میں سے زیادہ تر شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں ہیں۔ سنہ 2017 سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو چین میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور ‘تربیتی مراکز‘ جو کہ اصل میں حراستی کیمپ ہیں، ان میں ڈالے جانے کا سامنا ہے۔ ان کیموں میں انھیں جبری مشقت، قید، نگرانی اور کچھ لوگوں کے مطابق تشدد، بانجھ پن اور ریپ جیسی چیزوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

چین متعدد بار ان الزامات کی تردید کر چکا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ تربیتی مراکز ہیں جو شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔

افغانستان میں موجود اویغور آبادی کا تخمینہ تقریباً 2000 افراد ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جن کے والدین کئی دہائیوں پہلے چین سے بھاگ کر آئے تھے۔

ان افراد کے شناختی کارڈ پر اویغور یا چینی پناہ گزین لکھا ہوا ہے اور انھیں خوف ہے کہ اگر چین، امریکہ کے جانے سے خالی ہونے والے خلا کو پُر کرے تو اس صورت میں انھیں نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

کابل میں ایک اویغور شخص جس کی عمر 50 سے زیادہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ اب افغانستان میں اویغور برادری کا سب سے بڑا یہی خوف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے گھر سے باہر نہیں نکلا۔

’ہمیں خوف ہے کہ طالبان ہماری آمدورفت کی نگرانی میں چین کی مدد کریں گے یا وہ ہمیں پکڑ کر چین کے حوالے کر دیں گے۔‘

افغانستان میں جتنے بھی اویغور افراد سے بی بی سی نے بات کی ان کا کہنا ہے کہ طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے وہ گھر سے نہیں نکلے اور رابطے کے لیے کبھی کبھار فون پر بات کرتے ہیں۔

کابل میں ایک اور اویغور شخص نے بتایا ‘ہم اب مردوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمیں باہر جانے سے بھی خوف آتا ہے۔‘

کابل میں ایک اور اویغور شخص نے بتایا کہ وہ اپنے گھر میں اپنی بیوی، بچوں اور رشتے داروں کے ساتھ چھپے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم دس دن سے گھر میں بیٹھے ہیں اور ہماری زندگی رکی ہوئی ہے۔ ہمارے شناختی کارڈز پر صاف لکھا ہوا ہے کہ ہم اویغور ہیں۔‘

چین کا خوف بے بنیاد نہیں۔ حالیہ برسوں میں چینی ریاست نے اپنی سرحدوں سے باہر بسنے والے اویغور افراد پر بھی کریک ڈاؤن کیا اور کچھ لوگوں کو خاموش کروانے کے لیے انتہائی جارحانہ اقدام کیے ہیں حتیٰ کے کچھ لوگوں کو تو زبردستی واپس سنکیانگ لے کر گئے ہیں۔

جون میں اویغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ کی جانب سے شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق سنہ 1997 سے اب تک کم از کم 395 اویغوروں کو ملک بدر کیا گیا یا چین کے حوالے کیا گیا مگر حقیقت میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

کینیڈا میں معروف اویغور سماجی کارکن محمت توتی کا کہنا ہے کہ ’چین نے وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کے لیے سفارت کاری اور سرمایہ کاری کی اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں اویغوروں کو مقامی پولیس اور چینی ایجنٹ نشانہ بنا رہے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ چین ایسا ہی لائحہ عمل طالبان کے ساتھ استعمال کرے۔ اس دوستی کا امکان کم ہے۔ طالبان کے تاریخی طور پر کچھ اویغور جنگجوؤں کے ساتھ روابط ہیں، یہ وہی فورسز ہیں جو چینی سکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں مگر طالبان کی چین کے ساتھ تعاون کی بھی تاریخ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی طالبان کو انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی صلاحیت اویغوروں سے تعلقات سے زیادہ اہم ثابت ہو سکتی ہے۔

چین کے بیرونِ ملک اقتصادی اور معاشی روابط پر تحقیق کرنے والے بریڈلی جارڈین کا کہنا ہے کہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ اسے معاشی طور پر کافی فائدے پہنچاتا ہے اور بدلے میں اویغور ’قربانی کا بکرا‘ بنتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’طالبان چین سے معاشی فوائد کی امید لگائیں گے، انھیں چینی سرکایہ کاری کی ضرورت بھی ہے اور ہو سکتا ہے کہ افغانستان کے اویغور اس میں ایک ’بارگینگ چپ‘ بن جائیں۔‘

جولائی میں چین نے طالبان کے ایک سینئر وفد کو تیانجن آنے کی دعوت دی۔ وفد سے ملاقات میں چینی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے طالبان افغانستان میں امن، مفاہمت اور تعمیرِ نو کے لیے اہم کردار ادا کریں گے۔ طالبان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی سرزمین چین کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

افغانستان میں اویغوروں کو اس ملاقات کا علم ہے۔ وہ چین کی جانب سے بیرونِ ملک اویغوروں کو نشانہ بنانے کے متعلق بھی سب جانتے ہیں۔ سنکیانگ سے آنے والی ایک خاتون جو اس وقت مزارِ شریف میں رہتی ہیں، کہتی ہیں کہ ‘ہمیں طالبان کے چین کے ساتھ تعلقات کا پتا ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ پہلے وہ ان لوگوں کو نشانہ بنائیں گہ جو وہاں سے بھاگ کر آئے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ‘ہم نے شاپنگ کرنا اور گھر سے باہر جانا چھوڑ دیا ہے۔ ہم ڈر میں جی رہے ہیں۔ ہمیں مدد چاہیے۔ ہماری مدد کریں۔‘

دیگر اقلیتی گروپوں کے برعکس اویغور برادری کے پاس کوئی ریاست نہیں جو ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے اور یہی حقیقت انھیں طالبان کے زیِر اثر ملک میں زیادہ کمزور بناتی ہے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں پروفیسر اور وار آن ایغورز کے مصنف سین روبرٹس کہتے ہیں ’یہ ایک ایسی اقلیت ہے جن کی ریاستی سطح پر کوئی نمائندگی نہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ کیسے دوسرے ممالک اپنے شہریوں کے علاوہ ان لوگوں کو بھی افعانستان سے نکال رہے ہیں جن کا ان سے کسی بھی طرح کا نسلی تعلق موجود ہے جیسا کہ قزاق، کرغیز وغیرہ۔اور ایغوروں کو محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے لیے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔‘

چند نجی گروپس اویغوروں کو افغانستان سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انھیں بھی دوسروں جیسی مشکلات کا سامنا ہے۔ ترکی میں ایک پناہ گزین اویغور عبدالعزیز نصیری نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے افغانستان میں موجود اویغور برادری کے افراد کی مدد سے ملک میں رہنے والے اویغوروں کی فہرست بنائی ہے جسے وہ سماجی کارکنان کی مدد سے امریکہ، برطانیہ اور ترکی کو جمع کروا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ انھیں افعانستان سے نکال لیا جائے۔‘

لیکن کابل سے میلوں دور مزار شریف میں گھر سے باہر نکلنا آسان نظر نہیں آ رہا۔ حتیٰ کہ اگر کسی خاندان کو کابل سے جانے والی کسی پرواز میں سیٹ مل بھی جائے تو مزار شریف سے کابل کا سفر ہی دو گھنٹے پر محیط ہے اور راستے میں آنے والی ہر چوکی پر طالبان قابض ہیں۔ اویغوروں کے لیے اپنے شناختی کارڈ دکھائے بغیر ان چوکیوں سے گزرنا ممکن نہیں۔

مزار شریف میں رہنے والے ایک اویغور کہتے ہیں ’ایک مسلمان کے طور پر ہمارا ماننا ہے کہ نا امیدی کفر ہے۔‘

’لیکن جب سے میں افغانستان میں پیدا ہوا ہوں، میں نے صرف جنگ ہی دیکھی ہے۔ چالیس سال کی جنگ، ایک کے بعد ایک جنگ۔ میں اب اپنے بارے میں فکرمند نہیں۔۔۔ مجھے صرف میرے بچوں کی فکر ہے، خاص طور پر میری بیٹیوں کی۔ مجھے امید تھی کہ وہ تعلیم حاصل کر پائیں گی اور ڈاکٹر بن سکیں گی۔‘

اس خاندان میں سے کسی فرد نے بھی کبھی چین میں قدم نہیں رکھا۔ انھوں نے سنکیانگ میں حراستی کیمپوں اور اویغوروں کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں کے بارے میں پڑھا ہے۔

طالبان کے زیِراثر افغانستان میں وہ اپنی جان کو خطرے میں سمجھتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں ’ہمیں چین کا زیادہ ڈر ہے کیونکہ ہم اس زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں