عراق: فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کا داعش کے سابق گڑھ موصل کا دورہ

بغداد (ڈیلی اردو/اے ایف پی/روئٹرز) فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے اتوار کو دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کے سابق گڑھ موصل کا دورہ کیا۔ اس سے ایک روز قبل، انہوں نے عراق میں اپنے فوجی تعینات رکھنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

فرانسیسی صدر نے عراق میں اپنے فوجی تعینات رکھنے کے عزم کا اظہار عراق کی میزبانی میں ہفتہ 28 اگست سے شروع ہونے والی ایک علاقائی کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے کیا۔ بغداد میں مشرق وسطیٰ کی کشیدگی کو کم کرنے پر تبادلہ خیال کی غرض سے ہونے والے اس اجلاس کا فرانس شریک میزبان بھی ہے۔

اجلاس کی اہمیت

عراق میں یہ علاقائی اجلاس ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب چار عشروں سے جنگ کی شکار ہندو کُش کی ریاست افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادیوں کی افواج کا انخلا تکمیلی مراحل میں ہے تاہم افغانستان کی بدامنی اور وہاں کابل حکوت پر طالبان کے قبضے کے بعد سے تمام خطہ شدید تشویش اور پریشانی سے دوچار ہے۔ بغداد میں ہونے والے اجلاس کا موضوع ”دہشتگردی کے خلاف جنگ اور سقوط کابل اور طالبان کے افغان حکومت پر قبضے کے علاقلائی اثرات‘‘ ہی ہے۔

ہفتے کو اجلاس کے پہلے دن میکرون نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ”امریکی چاہے اپنے لیے جو بھی فیصلہ یا انتخاب کریں، ہم عراق میں اپنی موجودگی برقرار اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔‘‘ اس کانفرنس میں جن ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی، ان میں مشرق وسطیٰ کی علاقائی اور بین الاقوامی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والے دو دیرینہ حریف ممالک ایران اور سعودی عرب بھی شامل ہیں۔ عراق اوردیگر ممالک جن میں یمن، شام اور لبنان بھی شامل ہیں، کی سیاست پر ان دونوں ممالک کے گہرے اثرات پائے جاتے ہیں۔

موصل کا دورہ

اتوار کو فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون عراق کے ایک ایسے شہر کا دورہ کر رہے ہیں جو سُنی مسلم اکثریتی آبادی والا شہر ہے جو دہشت گرد گروپ داعش یا اسلامک اسٹیٹ کے قبضے میں رہ چکا ہے۔ اسے 2017ء میں داعش کے قبضے سے چھڑایا گیا تھا۔ موصل دراصل عراق کا ایک متنوع نسلی اور کثیرالمذہبی برادریوں پر مشتمل قدیم شہر ہے۔

موصل میں قدیم مسیحی برادری بھی آباد رہی ہے۔ داعش نے اس شہر کو اپنے قبضے میں لینے کے بعد جہاں شیعہ اور دیگر مسلم اقلیتوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا، وہاں مسیحی برادری بھی اسلامک اسٹیٹ کے غیر انسانی رویے، ظلم و ستم، قتل و غارت گری اور اپنے آبائی علاقے سے بے دخلی کا شکار رہی ہے۔

فرانسیسی صدر کے موصل کے دورے کو وہاں کی مسیحی برادری کے ساتھ ہمدردی اور ان کی حمایت کے اظہار کی تجدید کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ ماکروں موصل کے مشہور زمانہ چرچ ‘‘Our lady of the hour’’ کا دورہ کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس تاریخی کلیسا کی عمارت کو اقوام متحدہ کی ثقافتی ایجنسی یونیسکو بحال کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔

فرانسیسی صدر موصل یونیورسٹی کا دورہ بھی کر رہے ہیں جہاں ان کی ملاقاتیں نوجوان عراقیوں بشمول تاجروں اور طلبا کے ساتھ طے ہیں۔

ماکروں کا ‘تہذیبی پیغام‘

فرانس مشرق وسطیٰ کے اس خطے میں فرانسیسی زبان میں درس و تدریس دینے والے اسکولوں کی مالی اعانت کرتا ہے جس کا مقصد مشرق وسطیٰ میں مسیحیوں اور دیگر اقلیتی برادریوں کی حالت زار کو بہتر بنانا ہے۔ اس تناظر میں عراق کے دورے پر گئے ہوئے فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا، ”یہ پیغام تہذیبی ہے بلکہ جیو پولیٹیکل بھی ہے۔ اگر ان اقلیتی برادریوں کا احترام نہ کیا گیا تو عراق میں کوئی توازن نہیں رہے گا۔‘‘

ایمانوئیل میکرون کے موصل کے دورے کے دوران وہاں کی مشہور ‘النوری مسجد‘ کا دورہ بھی ان کی سرگرمیوں میں شامل ہے۔ یہی مقام ہے جہاں سے بیٹھ کر اسلامک اسٹیٹ کے لیڈر ابو بکر البغدادی نے 2014ء میں ‘خلافت‘ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔

ماکروں جمعے کے روز عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی کے ہمراہ شمالی بغداد کے ضلع کاظمیہ میں شیعہ مسلمانوں کی مقدس زیارت امام موسیٰ کاظم علیہ اسلام کے روزے پر بھی گئے تھے۔ کسی فرانسیسی صدر کا اس مقدس مقام کا یہ پہلا دورہ تھا۔

صدر ایمانوئیل میکرون عراقی کردستان کے خود مختار علاقے اربیل بھی جائیں گے۔ وہاں فرانسیسی اسپیشل فورسز کے ‘کیمپ گرانیئر‘ کے دورے کے بعد ان کی ملاقات کردش صدر نچیروان بارزانی اور ان کے پیشرو مسعود بارزانی سے طے ہے۔ ایمانوئیل میکرون آئی ایس یا داعش کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے پیشمرگا جنگجوؤں کے خاندان سے بھی ملیں گے اور ان جہادیوں کے خلاف کردوں کی جنگ و جدو جہد کو بھی خراج تحسین پیش کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں