طالبان کی کابل پر امریکی ڈرون حملوں کی مذمت

کابل (ڈیلی اردو/روئٹرز/اے ایف پی) طالبان کے ترجمان نے کابل پر تازہ ترین امریکی حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ملکی سرزمین پر امریکا کی یہ کارروائی غیر قانونی تھی۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے چین کے سرکاری ٹیلی وژن سی جی ٹی این کو پیر کے روز ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکا نے کسی قسم کی پیشگی اطلاع دیے بغیر کابل میں اتوار کو جو ڈرون حملہ کیا ہے وہ ایک غیر قانونی کارروائی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر سرزمین پر، کسی دوسرے کے ملک میں بغیر کسی اطلاع کے حملے کرنا غیر قانونی ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ طالبان کے ترجمان کے ان بیانات سے قبل پینٹاگون نے کہا تھا کہ اتوار کے روزداعش خراسان سے تعلق رکھنے والے بعض شدت پسند کابل ایئر پورٹ پر ایک اور خود کش حملے کی تیاری کر رہے تھے جس کو روکنے کے لیے امریکا نے ڈرون حملے کیے۔ امریکا نے اس کے لیے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا جو اطلاعات کے مطابق دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی تھی۔

ذبیح اللہ مجاہد کا بیان

پیر کو چین کے ٹیلی وژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں سات شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ امریکی کارروائی کو غیر ملکی سرزمین پر ایک غیر قانونی عمل قرار دیتے ہوئے کہا،” اگر افغانستان میں کسی ممکنہ حملے کے خطرات تھے تو اُس کی اطلاع سب سے پہلے ہمیں دی جانی چاہیے تھی نہ کہ ایک صوابدیدی حملہ کیا جانا چاہیے تھا، جو شہریوں کی ہلاکتوں کا سبب بنا۔‘‘ ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بیانات چینی ٹیلی وژن کو تحریری طور پر دیے تھے۔

اُدھر پینٹاگون حکام کا کہنا ہے کہ انہیں ایک خود کُش کار بم حملے کی اطلاع تھی جس کا ہدف کابل کا ہوائی اڈہ تھا جہاں امریکی فوجی دستے افغانستان سے انخلا کے حتمی مراحل میں ہیں۔ امریکی ذرائع کے مطابق اس علاقے میں حملے کی منصوبہ بندی اسلامک اسٹیٹ کی ایک علاقائی شاخ آئی ایس آئی ایس خراساں کی جانب سے کی گئی تھی۔

شہری ہلاکتوں کی چھان بین

امریکی سینٹرل کمان نے کہا ہے کہ اتوار کے روز کابل میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں شہری ہلاکتوں کی رپورٹوں کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ سینٹرل کمان کے بیان میں مزید کہا گیا ،” ہمیں اس بات کا علم ہے کہ وہاں دھماکہ خیز مواد سے لدی گاڑی کی وجہ سے کافی طاقتور دھماکے ہوئے ہیں جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس گاڑی میں کتنی بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد موجود تھا۔ اسی سبب اس میں انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔‘‘

دریں اثناء طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ہفتے کے روز امریکا کی طرف سے افغانستان کے مشرقی صوبے ننگر ہار میں کیے گئے ایسے ہی ایک دیگر حملے کی بھی مذمت کی ہے جس میں اسلامک اسٹیٹ کے دو جنگجو ہلاک ہوئے تھے۔ مجاہد کا مزید کہنا تھا کہ ننگر ہار میں امریکی حملے میں دو خواتین اور ایک بچہ زخمی بھی ہوئے تھے۔

یاد رہے کہ جمعرات 26 اگست کو کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے حملوں میں کم از کم 169 افغان شہری اور امریکی سروسز کے 13 اراکین ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد طالبان ذرائع نے خبررساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا تھا کہ امریکی فوجی کابل ایئرپورٹ کا انتظام جلد از جلد طالبان کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ طالبان عہدیدار کا کہنا تھا، ”ہم کابل ایئرپورٹ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے اور اسے اپنی عمل داری میں لینے کے لیے امریکا کی حتمی منظوری کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ طالبان کے اس عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ اس گروپ کے پاس تکنیکی ماہرین اور انجینیئرز کی ایک ٹیم موجود ہے جو کابل ہوائی اڈے کا مکمل کنٹرول سنبھالنے کے لیے تیار ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں