دولت اسلامیہ خراسان سے طالبان حکومت کو خطرہ

کابل + واشنگٹن () انسداد دہشت گردی کے ماہرین کے مطابق افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کو درپیش مشکلات میں دولت اسلامیہ (داعش) خراسان کی پیش قدمیاں ایک بڑا چیلنج ثابت ہوں گی۔ تاہم، ملک سے مغربی فورسز کے پیچھے ہٹنے پر طالبان کے حوصلے بلند ہیں اور وہ پر اعتماد ہیں کہ طالبان دولت اسلامیہ-خراسان کو ملک سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

گزشتہ مہینے ہی دولت اسلامیہ خراسان کے کابل ایئرپورٹ پر دہشت گرد حملوں میں 13 امریکی فوجی اور کم از کم 170 افغان شہری ہلاک ہوئے تھے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے جیمی ڈیٹمر کے مطابق، مغربی کابل میں طالبان اور دولت اسلامیہ خراسان کے جنگجوؤں میں جاری جھڑپوں کے دوران طالبان کمانڈر نے مغربی صحافیوں کے سامنے یہ دعویٰ کیا کہ وہ اپنے مخالفین کو ایسے ہی ختم کر دیں گے جیسے انہوں نے نیٹو افواج کو ملک سے نکلنے پر مجبور کیا۔

چند تجزیہ نگاروں کے مطابق، طالبان اور دولت اسلامیہ خراسان کے درمیان جنگ، دو شدت پسند جہادی گروہوں کے درمیان خونی اور بے رحمانہ کھیل بن سکتا ہے۔

اس ہفتے افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا مکمل ہونے سے پہلے ہی طالبان نے اشرف غنی حکومت کے دوران جیل میں ڈالے گئے دولت اسلامیہ خراسان کے چند سینئر کمانڈروں کو ہلاک کر دیا تھا اور گروپ کے سابق اہم راہنما مولوی ضیاء الحق کو بھی گولیاں مار کے ہلاک کر دیا تھا۔

خوراسان، چھٹی صدی عیسوی میں آج کے جدید افغانستان اور پاکستان کے علاوہ وسط ایشیا تک پھیلا اسلامی خطہ تھا۔

افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کو خطرہ

انسداد دہشتگردی کے ماہرین اور مغربی ممالک کے ملٹری حکام کے مطابق افغانستان کی موجودہ صورتحال میں پھر سے سر اٹھاتی دولت اسلامیہ خراسان، طالبان کے لئے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے اور افغانستان میں قومی حکومت کے قیام کو مشکلات میں ڈال سکتی ہے۔

افغانستان کے لئے امریکی سپیشل فورسز کے آپریشن کے کمانڈنگ جنرل کے سابق مشیر اور واشنگٹن کے ریسرچ گروپ سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں سیاسیات کے ماہر، سیٹھ جونز کے مطابق دولت اسلامیہ کے پاس ”اب ابھرنے کیلئے بہت سے مواقع ہیں”۔

سیٹھ کے مطابق امریکہ اور افغان فورسز کی حالیہ مشترکہ کارروائیوں میں اس گروپ کو خاصا نقصان پہنچا تھا اور اس کی تعداد چھ ہزار سے گھٹ کر دو ہزار پر پہنچ گئی تھی۔

دولت اسلامیہ-خراسان کی تشکیل افغانستان میں پہلی بار سال 2014ء میں ہوئی تھی اور اس میں بہت سے ایسے پاکستانی نژاد جنگجو شامل تھے جو سرحد پار پاکستانی افواج کی دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ سے بھاگے ہوئے تھے۔

یہ گروہ افغانستان میں دہشتگردی کی درجنوں کارروائیوں کا ذمہ دار ہے جن میں لڑکیوں کے اسکولز، ہسپتالوں اور ایک میٹرنٹی وارڈ پر حملہ بھی شامل ہے۔ اس گروہ پر میٹرنٹی وارڈ حملے میں حاملہ خواتین، نرسز اور نوزائیدہ بچوں کو نشانہ بنانے کا الزام ہے۔ گزشتہ ہفتے کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے سے اس گروپ کی استعداد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس گروہ کے بانی سال 2014ء تک طالبان کے صوبائی سطح کے کمانڈر رہنے والے عبد الروف علیزا تھے، جو فروری 2015ء میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔

شہاب المہاجر کون ہیں؟

دولت اسلامیہ خراسان کے موجودہ کمانڈر شہاب المہاجر ہیں۔ یہ بھی ماضی میں طالبان میں درمیانے درجے کے کمانڈر رہ چکے ہیں۔ شہاب المہاجر القاعدہ کے بھی کمانڈر رہ چکے ہیں اور کچھ مغربی ماہرین کے مطابق ان کے اب بھی طالبان کے حقانی نیٹ ورک کی قیادت سے قریبی تعلقات ہیں۔

حقانی نیٹ ورک اس وقت کابل کی سکیورٹی پر مامور طالبان کا اہم گروہ ہے۔

سابق امریکی انٹیلیجنس افسر اور اب امریکی ریسرچ ادارے ہڈسن انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ماہر مائیکل پریجنٹ نے اس شبہ کا اظہار کیا ہے کہ گزشتہ ہفتے کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے میں دولت اسلامیہ کو مبینہ طور پر حقانی نیٹ ورک کی معاونت حاصل تھی۔

پریجنٹ کے بقول،”اگر یہ دولت اسلامیہ خراسان کا کام تھا تو وہ کابل کی سکیورٹی پر مامور حقانی نیٹ ورک سے ہوکر گزرے تھے۔ اس گروہ کے کنٹرول میں سکیورٹی کے انتظامات کے ساتھ انٹلیجنس کا نظام بھی ہے”.

انہوں نے مزید تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکیوں تک پہنچنے کے لئے یقیناً یہ بمبار متعدد طالبان چیک پوسٹوں سے گزرا ہوگا۔

شہاب المہاجر اور دولت اسلامیہ-خراسان کی موجودہ لیڈرشپ، گروہ کو پر اثر بناںے اور دولت اسلامیہ کے اثر و رسوخ کو وسیع کرنے کی مشتاق اور خواہشمند نظر آتی ہے۔

جیمی ڈیٹمر کے مطابق انٹرنیٹ پر دولت اسلامیہ اور القائدہ کے ہمدرد جہادی چیٹ رومز اور فورمز ایسی گفتگو سے بھرے پڑے ہیں کہ کس طرح اب ملک شام کے بجائے توجہ افغانستان پر مرکوز ہونی چاہئے۔

گزشتہ سال اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں یہ نشاندہی کی گئی تھی کی المہاجر کس طرح ناراض طالبان جنگجووں کو دولت اسلامیہ کے لئے بھرتی کرنے کی کوششوں میں ہیں۔

موجودہ صورتحال میں طالبان قیادت کے ہر غلط قدم پر شہاب المہاجر کی نظر ہوگی اور وہ طالبان کی مقامی قیادت اور کمانڈرز کے درمیان اختلافات کا فائدہ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔

افغانستان میں غیر سرکاری تنظیموں کے لئے کام کرنے والے چند کارکنوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اپنی قیادت کے اعلان کے مطابق طالبان اگر نوے کی دہائی کے طرز حکومت پر واپس نہیں جاتے اور اپنے شرعی قانون میں واقعی نرمی دکھاتے ہیں تو طالبان کے بہت سے دستے ناراض ہوکر دولت اسلامیہ خراسان میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔

افغانستان کو اس وقت غذا کی قلت، بے روزگاری سے لے کر صحت اور تعلیم کےتباہ ہوتے نظام کا بھی سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، ایسی صورتحال کو دولت اسلامیہ-خراسان بخوبی اپنے حق میں استعمال کر سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں