سرینگر: سخت سکیورٹی میں حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کی تدفین کردی گئی

سری نگر (ڈیلی اردو/بی بی سی) کشمیر کے سیاسی منظرنامے پر پانچ دہائیوں تک چھائے رہنے والے بزرگ مزاحمتی رہنما سید علی شاہ گیلانی کی وفات کے بعد انڈین حکام نے سخت سکیورٹی میں ان کی تدفین کروا دی جس میں صرف چند قریبی رشتہ داروں کو شرکت کرنے کی اجازت دی گئی۔

سید علی گیلانی کی عمر 92 برس تھی اور وہ طویل عرصے سے علیل تھے۔

دوسری جانب سری نگر میں بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق وادی میں ہر قسم کی نقل و حرکت پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اگرچہ حریت رہنما کی تدفین علی الصبح ہو گئی تھی تاہم کشمیر کے کئی حصوں سے لوگ اس میں شرکت کرنا چاہتے تھے تاہم انھیں وہاں تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

ہمارے ساتھی شفاعت فاروق نے بتایا کہ سرینگر کے شہری علاقوں میں ڈرون اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا رہی ہے۔

ادھر حیدر پورہ میں سید علی شاہ گیلانی کی رہائش گاہ کے باہر سخت سکیورٹی حصار قائم ہے۔ پولیس نے گذشتہ روز ہی کہہ دیا تھا کہ کورونا کی وبا کے باعث صرف قریبی رشتہ داروں کو ہی جنازے میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔

جنازے میں صرف قریبی خاندان والوں کو شامل ہونے کی اجازت

اطلاعات کے مطابق علی گیلانی کے دو بیٹے، ان کی بیویاں اور بچے شامل ہوئے اور مرحوم کو حیدر پورہ میں ہی واقع ایک قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔

اس سے قبل سوشل میڈیا پر سید علی گیلانی کے ترجمان عبداللہ گیلانی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکام مرحوم حریت رہنما کی میت غسل سے قبل ہی جبراً تدفین کے غرض سے لے گئے ہیں۔

اسی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ میت کو زبردستی لے جانے کے معاملے پر سید علی گیلانی کے اہل خانہ اور فوجی اہلکاروں میں کشیدگی بھی ہوئی۔

کشمیری رہنماؤں کی جانب سے حکام کے مبینہ ناروا سلوک پر احتجاج کی کال بھی دی گئی ہے تاہم انڈین حکام کی جانب سے کشیدگی سے بچنے کے لیے وادی میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔

گیلانی کی وفات کے بعد کیا ہوا؟

سید علی گیلانی کی وفات کی خبر آنے کے فوراً بعد ہی وادی میں حکام نے ہائی الرٹ کا اعلان کر دیا تھا۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سرینگر میں سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کی جانب جانے والی سڑکوں پر رکاوٹیں اور خاردار تاریں رکھی گئی ہیں اور پولیس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وادی کشمیر میں کسی کو اپنے گھر چھوڑنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

اے ایف پی کے مطابق سید علی گیلانی کی وفات کے اعلانات قریبی مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے کیے گئے تھے اور لوگوں سے ان کی رہائش گاہ کی جانب مارچ کرنے کا کہا گیا تھا۔

https://twitter.com/tonyashai/status/1433249714359599108?s=19

سرینگر کی اہم شاہراؤں پر کثیر تعداد میں بکتر بند گاڑیاں دکھائی دے رہی ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہزاروں اہلکار بھی وہاں موجود ہیں۔

سید علی گیلانی طویل عرصے تک کشمیر میں دو درجن سے زیادہ ہند مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد آل پارٹیز حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے سربراہ رہے۔ تاہم گذشتہ برس انھوں نے حریت کانفرنس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی تاہم اپنے پیغام میں واضح طور پر کہا تھا کہ ’اس دیار فانی سے رحلت تک میں بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا اور اپنی قوم کی رہنمائی کا حق حسبِ استطاعت ادا کرتا رہوں گا۔‘

انھیں کشمیر کی سیاست میں ایک سخت گیر موقف کا حامی سیاستدان سمجھا جاتا تھا اور وہ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دیے جانے کے بہت بڑے حامی تھے۔

علی گیلانی اپنے سیاسی سفر میں اکثر جیل جاتے رہے اور عمر کی تقریباً ایک دہائی انھوں نے قیدخانوں میں گزاری۔ اُن کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔

سید علی گیلانی کی وفات پر مختلف حلقوں کی جانب سے گہرے غم کا اظہار کیا جا رہا ہے اور سیاستدانوں اور عوام کی جانب سے انھیں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنی ٹویٹ میں سید علی گیلانی کی مستقل مزاجی کی تعریف کی اور کہا کہ وہ ہمیشہ اپنے اصولوں پر قائم رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی اگرچہ زیادہ تر چیزوں پر علی گیلانی سے اتفاق نہیں کرتے تھے لیکن ’میں ان کی مستقل مزاجی اور اصول پسندی کے لیے ان کا احترام کرتی ہوں۔‘

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی علی گیلانی کی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’انھوں نے ساری زندگی کشمیری عوام اور ان کے حقِ خود ارادیت کے لیے جدوجہد میں گزاری اور قابض انڈین ریاست کی جانب سے قید اور تشدد سہنے کے باوجود ڈٹے رہے۔‘

عمران خان نے اعلان کیا کہ پاکستان میں علی گیلانی کی وفات پر سرکاری سطح پر یومِ سوگ منایا جائے گا اور پاکستانی پرچم سرنگوں رہے گا۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے بھی علی گیلانی کی وفات پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔

پاکستان کے صدر عارف علوی نے بھی سید علی گیلانی کی وفات پر عم کا اظہار کتے ہوئے کہا کہ ’گیلانی صاحب کا خواب تھا کے کشمیر آزاد ہوگا اور یہ خواب جلد پورا ہوگا۔‘

انھوں نے انڈین حکام کی جانب سے کشمیری رہنما کی تدفین میں جلدی اور پابندیوں کو نامناسب رویہ قرار دے کر افسوس کا اظہار کیا۔

پاکستان ملسم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے بھی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر لکھا ’سید علی گیلانی کی وفات کا سن کر دکھ ہوا۔ کشمیر نے ایک باپ جیسی شخصیت کو کھو دیا جس نے اپنی ساری زندگی کشمیر کی آزادی اور ظلم کے خلاف مزاحمت کے لیے وقف کر دی۔ ان کی جدوجہد اور سفر آنے والی نسلوں کو متاثر کرتا رہے گا۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں