سری نگر (ڈیلی اردو/بی بی سی) کشمیر کے سیاسی منظرنامے پر پانچ دہائیوں تک چھائے رہنے والے بزرگ مزاحمتی رہنما سید علی شاہ گیلانی کی وفات کے بعد انڈین حکام نے سخت سکیورٹی میں ان کی تدفین کروا دی جس میں صرف چند قریبی رشتہ داروں کو شرکت کرنے کی اجازت دی گئی۔
#Breaking: According to a senior police official, Syed Ali Shah Geelani will be buried in a local graveyard in Hyderpora, under the supervision of armed forces. A grave is presently being dug. Journalists have been asked to leave the burial site, @shahidtantray reports. #Kashmir pic.twitter.com/r5YPXfn8Go
— The Caravan (@thecaravanindia) September 1, 2021
سید علی گیلانی کی عمر 92 برس تھی اور وہ طویل عرصے سے علیل تھے۔
دوسری جانب سری نگر میں بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق وادی میں ہر قسم کی نقل و حرکت پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اگرچہ حریت رہنما کی تدفین علی الصبح ہو گئی تھی تاہم کشمیر کے کئی حصوں سے لوگ اس میں شرکت کرنا چاہتے تھے تاہم انھیں وہاں تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
ہمارے ساتھی شفاعت فاروق نے بتایا کہ سرینگر کے شہری علاقوں میں ڈرون اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا رہی ہے۔
ادھر حیدر پورہ میں سید علی شاہ گیلانی کی رہائش گاہ کے باہر سخت سکیورٹی حصار قائم ہے۔ پولیس نے گذشتہ روز ہی کہہ دیا تھا کہ کورونا کی وبا کے باعث صرف قریبی رشتہ داروں کو ہی جنازے میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔
جنازے میں صرف قریبی خاندان والوں کو شامل ہونے کی اجازت
اطلاعات کے مطابق علی گیلانی کے دو بیٹے، ان کی بیویاں اور بچے شامل ہوئے اور مرحوم کو حیدر پورہ میں ہی واقع ایک قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
اس سے قبل سوشل میڈیا پر سید علی گیلانی کے ترجمان عبداللہ گیلانی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکام مرحوم حریت رہنما کی میت غسل سے قبل ہی جبراً تدفین کے غرض سے لے گئے ہیں۔
اسی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ میت کو زبردستی لے جانے کے معاملے پر سید علی گیلانی کے اہل خانہ اور فوجی اہلکاروں میں کشیدگی بھی ہوئی۔
کشمیری رہنماؤں کی جانب سے حکام کے مبینہ ناروا سلوک پر احتجاج کی کال بھی دی گئی ہے تاہم انڈین حکام کی جانب سے کشیدگی سے بچنے کے لیے وادی میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔
گیلانی کی وفات کے بعد کیا ہوا؟
سید علی گیلانی کی وفات کی خبر آنے کے فوراً بعد ہی وادی میں حکام نے ہائی الرٹ کا اعلان کر دیا تھا۔
We are not allowed to proceed to Syed Ali Geelani’s residence. #Kashmir #Geelani pic.twitter.com/n2yZqRr1GK
— Imran Ali (@Imran___ALi) September 1, 2021
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سرینگر میں سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کی جانب جانے والی سڑکوں پر رکاوٹیں اور خاردار تاریں رکھی گئی ہیں اور پولیس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وادی کشمیر میں کسی کو اپنے گھر چھوڑنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
#Breaking: The J&K Police and the CRPF put up barbed wire outside the home of separatist leader Syed Ali Shah Geelani in Kashmir. Geelani has died at the age of 91.
Photograph by @shahidtantray.#Kashmir #Geelani pic.twitter.com/fXhLNjOOuy
— The Caravan (@thecaravanindia) September 1, 2021
اے ایف پی کے مطابق سید علی گیلانی کی وفات کے اعلانات قریبی مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے کیے گئے تھے اور لوگوں سے ان کی رہائش گاہ کی جانب مارچ کرنے کا کہا گیا تھا۔
https://twitter.com/tonyashai/status/1433249714359599108?s=19
سرینگر کی اہم شاہراؤں پر کثیر تعداد میں بکتر بند گاڑیاں دکھائی دے رہی ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہزاروں اہلکار بھی وہاں موجود ہیں۔
#SyedAliGeelani was buried in a nearby graveyard in wee hours. He passed away after a brief house detention of 11 years.There were massive deployment of forces outside his residence. We(Journalists) stayed whole night outside there. Media was strictly barred to cover the funeral. pic.twitter.com/NonHISSLV2
— Imran Ali (@Imran___ALi) September 2, 2021
سید علی گیلانی طویل عرصے تک کشمیر میں دو درجن سے زیادہ ہند مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد آل پارٹیز حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے سربراہ رہے۔ تاہم گذشتہ برس انھوں نے حریت کانفرنس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی تاہم اپنے پیغام میں واضح طور پر کہا تھا کہ ’اس دیار فانی سے رحلت تک میں بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا اور اپنی قوم کی رہنمائی کا حق حسبِ استطاعت ادا کرتا رہوں گا۔‘
Intense clashes erupted between govt forces and protesters in downtown area of Srinagar. #Kashmir #StonePelting #SyedAliShahGeelani #Srinagar
Pics : Imran Ali pic.twitter.com/fwqEAOM69V
— Imran Ali (@Imran___ALi) September 2, 2021
انھیں کشمیر کی سیاست میں ایک سخت گیر موقف کا حامی سیاستدان سمجھا جاتا تھا اور وہ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دیے جانے کے بہت بڑے حامی تھے۔
علی گیلانی اپنے سیاسی سفر میں اکثر جیل جاتے رہے اور عمر کی تقریباً ایک دہائی انھوں نے قیدخانوں میں گزاری۔ اُن کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔
سید علی گیلانی کی وفات پر مختلف حلقوں کی جانب سے گہرے غم کا اظہار کیا جا رہا ہے اور سیاستدانوں اور عوام کی جانب سے انھیں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنی ٹویٹ میں سید علی گیلانی کی مستقل مزاجی کی تعریف کی اور کہا کہ وہ ہمیشہ اپنے اصولوں پر قائم رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی اگرچہ زیادہ تر چیزوں پر علی گیلانی سے اتفاق نہیں کرتے تھے لیکن ’میں ان کی مستقل مزاجی اور اصول پسندی کے لیے ان کا احترام کرتی ہوں۔‘
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی علی گیلانی کی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’انھوں نے ساری زندگی کشمیری عوام اور ان کے حقِ خود ارادیت کے لیے جدوجہد میں گزاری اور قابض انڈین ریاست کی جانب سے قید اور تشدد سہنے کے باوجود ڈٹے رہے۔‘
عمران خان نے اعلان کیا کہ پاکستان میں علی گیلانی کی وفات پر سرکاری سطح پر یومِ سوگ منایا جائے گا اور پاکستانی پرچم سرنگوں رہے گا۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے بھی علی گیلانی کی وفات پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان کے صدر عارف علوی نے بھی سید علی گیلانی کی وفات پر عم کا اظہار کتے ہوئے کہا کہ ’گیلانی صاحب کا خواب تھا کے کشمیر آزاد ہوگا اور یہ خواب جلد پورا ہوگا۔‘
انھوں نے انڈین حکام کی جانب سے کشمیری رہنما کی تدفین میں جلدی اور پابندیوں کو نامناسب رویہ قرار دے کر افسوس کا اظہار کیا۔
پاکستان ملسم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے بھی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر لکھا ’سید علی گیلانی کی وفات کا سن کر دکھ ہوا۔ کشمیر نے ایک باپ جیسی شخصیت کو کھو دیا جس نے اپنی ساری زندگی کشمیر کی آزادی اور ظلم کے خلاف مزاحمت کے لیے وقف کر دی۔ ان کی جدوجہد اور سفر آنے والی نسلوں کو متاثر کرتا رہے گا۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔‘