وادی پنجشیر میں ہمارے جنگجوؤں کو طالبان پر سبقت حاصل ہے، ترجمان مزاحمتی محاذ

کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) ترجمان مزاحمتی محاذ نے طالبان کے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا میڈیا کو طالبان کے پروپیگنڈے پر یقین نہیں کرنا چاہیے، پنجشیر پر قبضے کا طالبان کا دعویٰ درست نہیں اور این آر ایف نے بہادری سے ان کے تمام حملوں کو ناکام بنایا ہے۔

طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ وادی پنجشیر کے تمام 34 اضلاع پر ان کا کنٹرول ہے۔ طالبان ذرائع کے مطابق سابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح کے تاجکستان فرار ہونے کی اطلاعات ہیں۔ تاہم افغان نشریاتی ادارے طلوع نیوز کے مطابق امراللہ صالح نے ان افواہوں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ افغانستان میں ہی موجود ہیں۔ انہوں نے پنجشیر سے طلوع نیوز سے خصوصی گفتگو کی۔

پنجشیر میں طالبان ہتھیار ڈالنے کی شرائط پر مذاکرات کر رہے ہیں، ترجمان

دوسری جانب قومی مزاحمتی محاذ افغانستان (این آر ایف اے) کے خارجہ تعلقات کے سربراہ اور ترجمان علی میثم نظری نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ میڈیا کو طالبان کے پروپیگنڈے پر یقین نہیں کرنا چاہیے، وادی پنجشیر پر قبضے کا طالبان کا دعویٰ درست نہیں، این آر ایف نے بہادری سے ان کے تمام حملوں کو ناکام بنایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے جنگجوؤں کو طالبان پر سبقت حاصل ہے اور پنجشیر وادی کے شمال مشرق میں طالبان جنگجوؤں کو گھیر لیا ہے جبکہ پنجشیر میں 100 طالبان جنگجو پھنسے ہوئے ہیں اور پنجشیر میں طالبان کا جنگی سامان ختم ہو رہا ہے اور پنجشیر میں طالبان ہتھیار ڈالنے کی شرائط پر مذاکرات کر رہے ہیں۔

گزشتہ روز بھی طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مخالفین کو بھاری نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ احمد مسعود کی سربراہی میں طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے والے قومی مزاحمتی پرنٹ افغانستان (این آر ایف اے) کے ترجمان نے بھی طالبان جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ مقامی مسلح گروپ کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ہم نے ان کے خلاف آپریشن شروع کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ طالبان کے جنگجو پنجشیر میں داخل ہو گئے ہیں اور انہوں نے بعض علاقوں کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجشیر سوویت یونین کے دور سے اب تک تقریباً آزاد ہی رہا ہے اور ہر دور میں مزاحمت جاری رکھی ہے۔ طالبان کے آخری دور حکومت میں بھی بلخ، بدخشاں اور پنجشیر میں طالبان کا نظام حکومت نافذ نہیں تھا البتہ اس بار طالبان نے بلخ اور بدخشاں پر کنٹرول قائم کرلیا ہے لیکن پنجشیر اب بھی ان کے کنٹرول میں نہیں۔

مزاحمتی تحریک کا ایک مقصد تو طالبان کے ساتھ شراکت اقتدار ہوسکتا ہے جس میں اہم ترین شرط پنجشیر کی خودمختاری شامل ہوسکتی ہے۔ ماضی میں طالبان کے زیر اثر نہ رہنے کی وجہ سے احمد مسعود اور ان کے ساتھ موجود دیگر قوتیں اب بھی اپنے طور پر آزادانہ نظام کی خواہاں ہیں کیوں کہ ان خوف ہے کہ طالبان کا نظام حکومت سخت قوانین پر مشتمل ہو سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں