ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید وفد کے ہمراہ کابل پہنچ گئے

کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید طالبان کی دعوت پر کابل پہنچ گئے۔

ذرائع کے مطابق حامد کرزئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ کابل پر پاکستانی سفیر منصور احمد خان اور سینئر طالبان رہنماؤں نے وفد کا استقبال کیا۔ جنرل فیض حمید اور پاکستانی وفد سرینا ہوٹل میں اہم طالبان رہنماؤں سمیت اہم ملاقاتیں کریں گے۔

ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید پاکستانی وفد کے حکام کے ہمراہ آج صبح افغانستان کے دارالحکومت کابل پہنچے ہیں۔جنرل فیض طالبان شوریٰ کی دعوت پر کابل پہنچنے والے اعلیٰ ترین درجہ کے غیر ملکی عہدیدار ہیں۔

جنرل فیض حمید اور طالبان کے مابین پاک طالبان سیکورٹی اقتصادی تجارتی تعلقات کے فوری مستقبل پر تبادلہ خیال ہو گا۔یاد رہے کہ طالبان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر 15 اگست کو قبضہ کر لیا تھا جبکہ معاشی طور پر تباہی اور بھوک و افلاس کے خدشات کے ساتھ 31 اگست کو افغانستان میں 20 سالہ مغربی جنگ کا خاتمہ ہوگیا تھا۔

گذشتہ روز طالبان کی جانب سے نئی افغان حکومت کا اعلان مؤخر کردیا گیا تھا۔ طالبان کی جانب سے نئی افغان انتظامیہ کا اعلان ہفتے تک التواء کا شکار ہوگیا ہے۔ معاون ترجمان افغان طالبان بلال کریمی نے کہا کہ گزشتہ جمعہ نئی حکومت سے متعلق تاریخ کا اعلان نہیں کیا، نئی حکومت کا جلد اعلان کریں گے تاخیر نہیں ہو گی۔

گذشتہ رات طالبان جنگجوؤں کی جانب سے کابل میں پنجشیر کی فتح کی خبر پھیل جانے کے بعد ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں 17 ہلاکتوں کی اطلاع ہے۔

طلوع نیوز نے کابل کے ایمرجنسی ہسپتال کے حوالے سے بتایا ہے کہ 17 لاشوں اور 41 زخمی افراد کو ہسپتال لایا گیا جو گذشتہ رات کی ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک یا زخمی ہوئے۔

گذشتہ رات فائرنگ کی اطلاعات کے بعد طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے جنگجوؤں کو ہوائی فائرنگ سے گریز کرنے کو کہا تھا۔

ٹویٹر پر پوسٹ کیے گئے پیغام میں طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہوائی فائرنگ کے بجائے خدا کا شکر ادا کریں۔

’ہتھیار اور گولہ بارود آپ کے ہاتھ میں ہے، کسی کو ان کو ضائع کرنے کا حق نہیں ہے۔ یہ گولیاں عام شہریوں کو زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس لیے بلا ضرورت گولی نہ چلائیں۔‘

میڈیا رپورٹ کے مطابق سرکاری ٹی وی سے گفتگو میں معاون ترجمان افغان طالبان بلال کریمی کا کہنا تھا کہ وادی پنج شیر کا مغربی حصہ پہلے ہی کنٹرول میں آچکا ہے جب کہ اس وادی کے مشرقی علاقے بھی ہمارے کنٹرول میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے بڑے ضلع پریان میں امن بحال کر چکے ہیں، وادی مجموعی طور پر طالبان کے سخت محاصرے میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کاپیسا کے راستے ضلع انابہ پر بھی ہمارا کنٹرول ہے، مخالفین کو بھاری نقصان کا سامنا ہے جب کہ طالبان محفوظ ہیں۔

طالبان ذرائع کے مطابق سابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح کے تاجکستان فرار ہونے کی اطلاعات ہیں۔ تاہم افغان نشریاتی ادارے طلوع نیوز کے مطابق امراللہ صالح نے ان افواہوں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ افغانستان میں ہی موجود ہیں۔ انہوں نے پنجشیر سے طلوع نیوز سے خصوصی گفتگو کی۔

دوسری جانب قومی مزاحمتی محاذ افغانستان (این آر ایف اے) کے خارجہ تعلقات کے سربراہ اور ترجمان علی میثم نظری نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ میڈیا کو طالبان کے پروپیگنڈے پر یقین نہیں کرنا چاہیے، وادی پنجشیر پر قبضے کا طالبان کا دعویٰ درست نہیں، این آر ایف نے بہادری سے ان کے تمام حملوں کو ناکام بنایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے جنگجوؤں کو طالبان پر سبقت حاصل ہے اور پنجشیر وادی کے شمال مشرق میں طالبان جنگجوؤں کو گھیر لیا ہے جبکہ پنجشیر میں 100 طالبان جنگجو پھنسے ہوئے ہیں اور پنجشیر میں طالبان کا جنگی سامان ختم ہو رہا ہے اور پنجشیر میں طالبان ہتھیار ڈالنے کی شرائط پر مذاکرات کر رہے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجشیر سوویت یونین کے دور سے اب تک تقریباً آزاد ہی رہا ہے اور ہر دور میں مزاحمت جاری رکھی ہے۔ طالبان کے آخری دور حکومت میں بھی بلخ، بدخشاں اور پنجشیر میں طالبان کا نظام حکومت نافذ نہیں تھا البتہ اس بار طالبان نے بلخ اور بدخشاں پر کنٹرول قائم کرلیا ہے لیکن پنجشیر اب بھی ان کے کنٹرول میں نہیں۔

مزاحمتی تحریک کا ایک مقصد تو طالبان کے ساتھ شراکت اقتدار ہوسکتا ہے جس میں اہم ترین شرط پنجشیر کی خودمختاری شامل ہوسکتی ہے۔ ماضی میں طالبان کے زیر اثر نہ رہنے کی وجہ سے احمد مسعود اور ان کے ساتھ موجود دیگر قوتیں اب بھی اپنے طور پر آزادانہ نظام کی خواہاں ہیں کیوں کہ ان خوف ہے کہ طالبان کا نظام حکومت سخت قوانین پر مشتمل ہو سکتا ہے۔

خیال رہے کہ ایک طرف جہاں طالبان افغانستان میں وادی پنج شیر میں باغیوں سے لڑائی میں مصروف ہیں اور معاشی تباہی سے بچنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں وہیں طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کے شریک بانی ملا برادر نئی افغان حکومت کی قیادت کریں گے جس کا اعلان جلد کیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں