طالبان کی نئی عبوری کابینہ 11 ستمبر حملوں کو 20 سال مکمل ہونے پر حلف اٹھائے گی

کابل + واشنگٹن (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی) افغانستان کی نئی وزارت داخلہ نے ملک میں فی الوقت مظاہروں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ سابق صدر اشرف غنی نے قوم سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ اس لیے فرار ہوئے تاکہ کابل کو خونریزی سے بچایا جا سکے۔

افغانستان میں طالبان نے جس نئی عبوری کابینہ کا اعلان کیا تھا وہ سنیچر گیارہ ستمبر کو حلف لے گی۔ طالبان کی نئی حکومت نے اپنے ٹویٹر ہینڈل سے پوسٹ کیے گئے اپنے ایک پیغام میں لکھا، ” امارت اسلامی نے نئی حکومت کی تقریب حلف برداری کے لیے 11 ستمبرکی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے۔”

گیارہ ستمبر کو امریکا کے ٹوئن ٹاورز پر دہشت گردانہ حملوں کے بیس برس مکمل ہو رہے ہیں۔ ان حملوں کے بعد ہی امریکا نے اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان کے خلاف جنگ شروع کی تھی۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے چند روز قبل 31 اگست کو ہی اس فوجی آپریشن کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔

گیارہ ستمبر، جسے عرف عام میں نائن الیون کہا جاتا ہے، امریکا اور افغانستان دونوں ہی کے لیے ایک اہم تاریخی دن ہے اور اب طالبان نے اسی روز اپنی نئی عبوری حکومت کی حلف برداری کی تقریب کا اعلان کر دیا ہے۔

اشرف غنی کی معذرت

اس دوران ملک کے سابق صدر محمد اشرف غنی نے ایک بار پھر سے ملک سے فرار ہونے کے لیے معذرت طلب کی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسا اس لیے کیا تاکہ کابل کو خونریزی سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے کہا اس کا قصد امن کا قیام تھا، “عوام کو ترک کرنا نہیں تھا۔”

اس حوالے سے ان کا تفصیلی بیان ٹویٹر پر جاری کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا، “کابل چھوڑنا میری زندگی کا مشکل ترین فیصلہ تھا، لیکن میرا ماننا ہے کہ بندوقوں کو خاموش رکھنے اور کابل اور اس کے 60 لاکھ شہریوں کو بچانے کا یہی واحد طریقہ بھی تھا۔”

انہوں نے ایک بار پھر اس بات کی سختی سے تردید کی کہ وہ ملک کی بڑی دولت لے کر فرار ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے تمام خبریں جھوٹ پر مبنی ہیں اور وہ اس کی تفتیش کے لیے بھی تیار ہیں۔ اس سے قبل بھی انہوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام اسی طرح کی باتیں کہی تھیں۔ اشرف غنی نے اس وقت متحدہ عرب امارت میں پناہ لے رکھی ہے۔

مظاہروں پر پابندی کی کوشش

افغانستان میں حالیہ کچھ دنوں سے دارالحکومت کابل اور بعض دیگر شہروں میں انسانی حقوق اور سکیورٹی کے حوالے سے مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ تاہم طالبان نے ان مظاہروں کو بد نیتی پر مبنی اور سکیورٹی کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے فی الوقت ان پر پابندی لگانے کی بات کہی ہے۔

امارت شرعیہ افغانستان کی نئی وزارت داخلہ نے جو نئی ہدایات جاری کی ہیں اس میں مقامی حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ پیشگی منظوری کے بغیر ایسے مظاہروں کی اجازت نہ دیں، اور اگر کسی تنظیم کو مظاہرہ کرنا ہو تو اس کے مقاصد کی تفصیل بتا کر مقامی حکام سے پہلے اجازت لے۔

وزارت داخلہ کے ایک بیان میں کہا گیا، ”تمام شہریوں سے اعلانیہ طور پر کہا جا رہا ہے کہ فی الوقت وہ کسی بھی بینر کے تحت، چاہے اس کا مقصد، کچھ بھی ہو، مظاہرے سے باز رہیں۔”

مظاہرین میں شرکت کرنے والی بیشتر خواتین ہیں جو اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ ان نئی ہدایات کے بعد وہ شاید ایسا نہ کر سکیں۔

سرکاری افسران سے دفتر لوٹ آنے کی اپیل

طالبان کی حکومت نے ایک بار پھر سے تمام حکومتی افسران سے سرکاری دفتروں میں واپس ہونے کی اپیل کی ہے اور کہا کہ طالبان، ”ان کے تحفظ اور سکیورٹی کی ضمانت دیتے ہیں۔”

کارگزار نائب وزیر اعظم ملّا محمد حسن آخوند نے الجزیرہ ٹی وی کو ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ جو افراد بھی امریکا کے ساتھ کام کرتے رہے تھے ان سے انتقام نہیں لیا جائے گا۔ ان کا دعوی تھا کہ کوئی بھی شخص یہ ثابت نہیں کر سکتا ہے کہ طالبان نے ان کے ساتھ کوئی انتقامی کارروائی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی ملک میں حالات کافی کشیدہ ہیں اس لیے کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے تاہم ان کی تحریک سخت اصول و ضوابط کی پابند ہے۔ ہم نے کسی بھی شخص کو اس کے ماضی کے ریکارڈ کی بنیاد پر کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے۔”

اس دوران سعودی عرب نے پہلی بار افغانستان کی صورت حال پر اپنے پہلے رد عمل میں کہا ہے کہ عبوری حکومت کے قیام سے امن و استحکام قائم کیا جا سکے گا۔ سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان کے بحران کے حوالے سے ہونے والے ایک اجلاس کے دوران وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان یہ بات کہی ہے۔

ان کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ سعودی عرب افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے افغان عوام کی مرضی کا حامی ہے اور اس میں بیرونی مداخلت سے باز رہنے کی ضرورت ہے۔ ”ریاض کو امید ہے کہ افغانستا کی عبوری حکومت استحکام و سلامتی کے لیے صحیح راستہ ہے۔ اس سے تشدد اور انتہا پسندی پر بھی قابو پا یا جا سکے گا۔”

سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان کی اپنی حمایت کو جاری رکھے گا تاکہ ملک کو مزید بحران سے نکالا جا سکے۔

آسٹریلیا کی کرکٹ نہ کھیلنے کی دھمکی

خبر رساں ادارے روئٹرز نے کی اطلاعات کے مطابق آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے کہا ہے کہ اگر طالبان نے افغان خواتین کو کرکٹ کھیلنے کی اجازت سے منع کیا تو آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم بطور احتجاج افغانستان کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ اپنی طے شدہ ٹیسٹ سیریز کا بائیکاٹ کرے گی۔

حال ہی میں ایک طالبان رہنما نے کہا تھا کہ ان کی نظر میں خواتین کو کرکٹ کھیلنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے ان کی بے پردگی ہوتی ہے اور چہرہ اور جسم نہ ڈھکنا اسلام کے خلاف ہے۔

آسٹریلوی کرکٹ بورڈ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”افغانستان میں خواتین کرکٹ کو حمایت نہ ملنے کی اطلاعات اگر درست ثابت ہوتی ہیں، تو پھر کرکٹ آسٹریلیا کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا کہ وہ اس ٹیسٹ میچ کے لیے افغان کرکٹ ٹیم کی میزبانی نہ کرے جو ہوبارٹ میں ہونا طے ہے۔”

اس بیان کے مطابق خواتین کے کرکٹ کی ترقی آسٹریلیا کی کرکٹ بورڈ کے لیے بہت اہم ہے۔ ”ہمارا نظریہ یہ ہے یہ کھیل سبھی کے لیے ہونا چاہیے۔ ہم کرکٹ کو خواتین کے لیے بھی برابری کی سطح پر لانا چاہتے ہیں۔” افغان کرکٹ ٹیم کے ساتھ آسٹریلیا کا ٹیسٹ میچ آئندہ 27 نومبر کو کھیلا جانا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں