افغانستان: طالبان کی عبوری حکومت نے مظاہروں پر پابندی عائد کردی، خواتین پر تشدد

کابل (ڈیلی اردو) افغانستان میں حالیہ کچھ دنوں سے دارالحکومت کابل اور بعض دیگر شہروں میں انسانی حقوق اور سکیورٹی کے حوالے سے مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ تاہم طالبان نے ان مظاہروں کو بد نیتی پر مبنی اور سکیورٹی کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے فی الوقت ان پر پابندی لگانے کی بات کہی ہے۔

امارت شرعیہ افغانستان کی نئی وزارت داخلہ نے جو نئی ہدایات جاری کی ہیں اس میں مقامی حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ پیشگی منظوری کے بغیر ایسے مظاہروں کی اجازت نہ دیں، اور اگر کسی تنظیم کو مظاہرہ کرنا ہو تو اس کے مقاصد کی تفصیل بتا کر مقامی حکام سے پہلے اجازت لے۔

وزارت داخلہ کے ایک بیان میں کہا گیا، ”تمام شہریوں سے اعلانیہ طور پر کہا جا رہا ہے کہ فی الوقت وہ کسی بھی بینر کے تحت، چاہے اس کا مقصد، کچھ بھی ہو، مظاہرے سے باز رہیں۔”

مظاہرین میں شرکت کرنے والی بیشتر خواتین ہیں جو اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ ان نئی ہدایات کے بعد وہ شاید ایسا نہ کر سکیں۔

اقوام متحدہ کی تشویش

کابل میں اقوام متحدہ کی ایک اہلکار نے کہا ہے افغان عورتوں کے حقوق اور احترام کے حوالے سے طالبان اپنے وعدوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے خواتین کے لیے ذیلی ادارے یو این ویمن کی ترجمان ایلیسن ڈیویڈین کا کہنا ہے کہ طالبان نے اپنے بیان میں اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ اسلام کے مطابق عورتوں کے حقوق کا احترام کریں گے۔

نیویارک میں صحافیوں سے ایک ویڈیو کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کی مثالیں یہ ہیں کہ عورتوں کو محرم کے بغیر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے اور کچھ ایسے صوبے ہیں جہاں عورتیں کام پر نہیں جا سکیں۔

یاد رہے کہ منگل کو طالبان نے اپنی عبوری حکومت کا اعلان کیا تھا جس میں ایک بھی عورت شامل نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب وقت ہے کہ طالبان بتائیں کہ ان کی حکومت سب طالبان کے لیے ہے۔

واضح رہے گزشتہ روز کابل میں افغان شہریوں نے پاکستان اور طالبان مخالف احتجاج کیا تھا. جس میں پاکستان اور طالبان مخالف نعرے بازی کی گئی تھی۔

طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے خواتین بھی سراپا احتجاج ہیں اپنے حقوق کے تحفظ کا مطالبا کررہی ہیں۔

ادھر صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو دنوں میں طالبان نے تقریباً 14 صحافیوں کو گرفتار کیا جو کابل میں مظاہرے کی کوریج کر رہے تھے۔

سی پی جے کے مطابق چھ صحافیوں کو گرفتار کرنے کے بعد ان پر تشدد کیا گیا۔

سی پی جے مطابق گرفتار صحافیوں کو پولیس سٹیشن لے جایا گیا تھا اور انھیں وہاں الک الگ کمرے میں رکھا گیا۔ ان کے ساتھ برا سلوک کیا گیا اور انھیں تاروں کے ساتھ مارا پیٹا گیا۔

بہت سے صحافیوں، جن میں بی بی سی سے منسلک صحافی بھی شامل ہیں، کو گذشتہ روز کیے جانے والے احتجاج کی تصاویر یا ویڈیوز بنانے سے روکا گیا۔

سی جے پی کے ایشیا میں پروگرام کوارڈینیٹر سٹیون بٹلر نے کہا ہے کہ طالبان نے یہ بہت جلدی ہی ثابت کر دیا ہے کہ ان کی جانب سے کیے جانے والے وعدے، کہ وہ میڈیا کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیں گے، بے معنی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں