امریکا نے افغانستان میں 20 برس کے دوران یومیہ 29 کروڑ ڈالر خرچ کیے، رپورٹ

واشنگٹن (ڈیلی اردو) بران یونیورسٹی کی مرتب کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا نے افغانستان میں 7 ہزار 300 دنوں پر مشتمل 20 سالہ جنگ اور قومی ترقی کے نام پر یومیہ 29 کروڑ ڈالر خرچ کیے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا نے افغانستان میں گزشتہ 20 برس میں 2 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے۔

امریکی میڈیا کے کئی بڑے اداروں نے اس رپورٹ کو نمایاں حیثیت دی جس میں کہا گیا کہ اس رقم سے مختصر تعداد پر مشتمل نوجوان، انتہائی امیر افغانی بن گئے، ان میں سے بیشتر نے امریکی فوج کے مترجم کی حیثیت سے کام شروع کیا اور اور کروڑ پتی بن گئے۔

ایک امریکی نیوز چینل نے یونیورسٹی کے نتائج پر اپنی رپورٹ میں کہا کہ کنٹریکٹرز کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوئی جس نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بالآخر اس کی نازک جمہوریت کو تباہ کر دیا۔

رپورٹ کے مطابق امریکا نے افغانستان کی تعمیر نو میں یہ تمام کوششیں کیں پھر بھی طالبان کو ہر صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کرنے، فوج کو تحلیل کرنے اور امریکی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے میں صرف 9 دن لگے۔

پینٹاگون واچ ڈاگ سیگار کے ساتھ ایک انٹرویو میں افغانستان میں دو مرتبہ امریکی سفیر ریان کروکر نے نائن الیون کے بعد کی کرپشن کو امریکا کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری کوششوں کی ناکامی کا واضح پہلو شورش نہیں بلکہ مقامی بدعنوانی کا وزن تھا۔کئی کروڑ پتی افغان باشندوں میں بیشتر نے امریکی فوج کے مترجم کے طور پر کام شروع کیا اور اپنی وفاداری کی وجہ سے وہ دفاعی معاہدوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

ان میں سے ایک کابل میں انگریزی کے استاد فہیم ہاشمی تھے جنہیں امریکی فوج نے بطور مترجم اپنے ساتھ شامل کیا۔بعد میں فہیم ہاشمی نے ایک کمپنی قائم کی جو فوجی اڈوں کو سامان اور ایندھن فراہم کرتی تھی۔ندیم ہاشمی گزشتہ ماہ کابل حکومت کے خاتمے کے لیے بدعنوانی کو مورد الزام ٹھہرانے سے نہیں شرماتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں