امریکا نے اتحادی ہوتے ہوئے پاکستان پر 480 ڈرون حملے کیے، وزیرِ اعظم عمران خان

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان ایک تاریخی دو راہے پر ہے۔ ہماری دعا ہے کہ یہ 40 سال بعد امن کی راہ پر چلا جائے اور اگر طالبان تمام دھڑوں کو ساتھ لے کر حکومت بنائیں تو یہ ممکن ہو سکتا ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی بیکی اینڈرسن کو اسلام آباد میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پر اگر دوسرے راستے پر گیا تو ایک بہت بڑا انسانی بحران پیدا ہو سکتا ہے اور ہمیں اس حوالے سے بہت فکر ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکہ یہاں دہشتگردوں سے لڑنے کے لیے آیا تھا، اور غیر مستحکم افغانستان، پناہ گزینوں کا بحران، اور دوبارہ یہاں سے دہشتگردی (کا خدشہ ہے۔) اُنھوں نے کہا کہ افغانستان میں صورتحال ’باعثِ تشویش‘ ہے۔

عمران خان نے کہا کہ اس وقت کوئی بھی پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ افغانستان کہاں جائے گا۔

اُنھوں نے کہا کہ طالبان نے جو مثبت وعدے کیے ہیں ان سے لگتا ہے کہ وہ بین الاقوامی طور پر خود کو تسلیم کروانا چاہتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ افغانستان کو کبھی بھی باہر سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، اس لیے اُنھیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے اُنھیں فوائد کی پیشکش کرنی چاہیے۔

عمران خان نے کہا کہ موجودہ حکومت یہ واضح طور پر سمجھتی ہے کہ بین الاقوامی طور پر مدد کے بغیر وہ عوام کی مدد نہیں کر سکتے اور اس بحران سے نہیں نمٹ سکتے اس لیے ہمیں انھیں فوائد فراہم کرنے چاہییں۔

بیکی اینڈرسن نے سوال کیا کہ طالبان نے کہا ہے کہ خواتین کو کرکٹ نہیں کھیلنا چاہیے، کوئی بھی کھیل نہیں کھیلنا چاہیے، خواتین باہر نکلنے سے خوفزدہ ہیں، کیا آپ اس مقصد کی حمایت کرتے ہیں؟

اس سوال پر اُنھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سوچنا غلطی ہے کہ باہر سے بیٹھ کر کوئی افغان خواتین کو حقوق دے سکتا ہے۔

عمران خان نے خواتین کے حقوق کے بارے میں کہا کہ افغان خواتین مضبوط ہیں، اُنھیں وقت دینا چاہیے، اُنھیں حقوق مل جائیں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ خواتین کو ہر شعبے میں شریک ہونا چاہیے مگر جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ خواتین کو حقوق نہ دینے پر طالبان کی حمایت نہیں کریں گے، تو اُنھوں نے کہا کہ نہیں وہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ خواتین کو حقوق باہر سے بیٹھ کر نہیں دیے جا سکتے۔

’کسی نے توقع نہیں کی تھی کہ افغانستان میں یہ ہوگا‘

عمران خان نے افغانستان سے امریکی انخلا کے بارے میں سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے امریکہ کے صدر سے افغانستان سے انخلا کے بعد سے اب تک بات نہیں کی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ جو بائیڈن ’ایک مصروف آدمی ہیں۔‘

جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ بائیڈن کا کال نہ کرنا کیا پاکستان کو طالبان کی حمایت کرنے پر سزا دینا ہے، تو اُنھوں نے کہا کہ یہ اُن سے پوچھا جانا چاہیے۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے گیارہ ستمبر کے بعد امریکہ کا ساتھ دینے پر بے پناہ مشکلات اٹھائیں۔ ’ایک موقع پر 50 عسکریت پسند ہمارے خلاف حملے کر رہے تھے۔‘

افغانستان کی حکومت کی مدد نہ کرنے کے علاوہ کیا چوائس ہے؟

عمران خان نے کہا کہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کا کام ہر کسی سے تعلق رکھنا اور بات کرنا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب پاکستانی طالبان پہلے ہی پاکستان کے خلاف حملے کر رہے تھے تو کیا ایک اور ملٹری ایکشن لیا جا سکتا تھا۔

عمران خان نے کہا کہ کیا اس وقت اس حوالے سے کوئی چوائس ہے کہ افغانستان کی حکومت کی مدد نہ کی جائے؟

اُنھوں نے کہا کہ یہ طالبان سے متعلق نہیں بلکہ افغانستان کے عوام سے متعلق ہے۔

امریکہ کا ساتھ دینے پر بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے

عمران خان نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے دہشتگردی کی مد میں بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس دوران بینظیر بھٹو بھی ایک حملے میں ہلاک ہوئیں اور پاکستان کو 150 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

پاکستان کو لاحق خدشات کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا خدشہ پناہ گزین ہیں جو پہلے ہی 30 لاکھ کی تعداد میں یہاں موجود ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ افغانستان میں موجود داعش کے دہشتگرد جو وہاں کی سرزمین یہاں حملوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں، بلوچ درانداز، اور اس کے علاوہ پاکستان طالبان، سب سے حملوں کا خطرہ ہے۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت ان دونوں حوالے سے خدشات ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس تمام دور میں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات انتہائی خراب تھے۔ امریکہ کہتا تھا کہ اس نے ہماری مدد کی ہے اور انھوں نے ہمیں 9 ارب ڈالر کی غیر فوجی اور 11 ارب ڈالر کی فوجی امداد دی۔ ’ہم ایک طرح کی ہائرڈ گن تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ اس طرح کے تعلقات ہوں جیسے اس کے انڈیا کے ساتھ ہیں، ایک کثیر الجہتی تعلق۔ انھوں نے کہا کہ ایسا تعلق نہیں ہونا چاہیے جس میں وہ ہمیں ان کے لیے لڑائی کرنے کے پیسے دیں ’ہم نارمل تعلق چاہتے ہیں۔‘

امریکہ نے اتحادی ہوتے ہوئے پاکستان پر 480 ڈرون حملے کیے

عمران خان نے کہا کہ سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کو سکھایا گیا کہ غیر ملکی قبضے کے خلاف لڑنا مقدس جنگ ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اب وہ مغربی فورسز کے خلاف حملے کر رہے ہیں تو اسے دہشتگردی کہا جاتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ پشتون بیلٹ کی ہمدردیاں طالبان سے مذہبی بنیادوں پر نہیں ہیں بلکہ پشتون قومیت کی وجہ سے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں امریکہ کی جانب سے 480 ڈرون حملے کیے گئے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ سب اتحادی ہوتے ہوئے کیا گیا ہے۔


’ہم سے توقع کی گئی کہ ہم پناہ گزین کیمپوں کی تلاشی کریں کہ کون طالبان ہے یا نہیں‘

جب عمران خان سے گذشتہ روز امریکی سینیٹ میں حقانی نیٹ ورک سمیت طالبان کو پناہ فراہم کرنے کے الزام کے بارے میں سوال کیا گیا تو عمران خان نے کہا کہ یہ انتہائی لاعلمی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکیوں کو معلوم نہیں تھا کہ حقانی نیٹ ورک کیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ یہ افغانستان میں رہنے والا پشتون قبیلہ ہے۔ ’ہم نے پچاس لاکھ افغان لوگوں کو جب پناہ دی تو اُن میں حقانی بھی تھے۔ کئی یہاں پناہ گزین کیمپوں میں پیدا ہوئے۔‘

’ہم سے توقع کی گئی کہ ہم پناہ گزین کیمپوں کی تلاشی کریں کہ کون طالبان ہے یا نہیں۔‘

عمران خان نے کہا کہ پاکستان کا 50 ارب ڈالر بجٹ ہے جو 22 کروڑ لوگوں پر خرچ ہوتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ہمارے پاس ایک اور جنگ کے لیے پیسے نہیں تھے، ہم بمشکل ہی اپنے اخراجات پورے کر سکتے تھے۔

’چین کے ساتھ تعلقات امریکہ کے ساتھ تعلقات پر منحصر نہیں‘

چین سے تعلقات کے بارے میں عمران خان نے کہا کہ اُن کے چین کے ساتھ تعلقات امریکہ کے ساتھ تعلقات پر منحصر نہیں ہیں۔

وزیرِ اعظم نے مزید کہا کہ یہ پاکستان تھا جس نے 1970 کی دہائی میں چین اور امریکہ کے درمیان برف پگھلانے میں کردار ادا کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں