افغان خواتین کس طرح طالبان حکومت کیخلاف مزاحمت کر رہی ہیں

کابل (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) جب سے طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے، ان کے احکامات اور کریک ڈاؤن سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ ان بنیاد پرستوں کی حکومت خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو ُبری طرح دبا کر رکھنا چاہتی ہے۔

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آتے ہی وزارت داخلہ کے اولین سرکاری حکم نامے میں کہہ دیا گیا کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر مظاہروں پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔ اس کی مزید تفصیلات میں کہا گیا کہ مظاہرین کو احتجاج سے پہلے سرکاری اجازت نامہ حاصل کرنا ہوگا اور سکیورٹی ایجنسیوں کو تمام تفصیلات سے آگاہ کرنا ہو گا، جیسے کے احتجاج کے دوران کس قسم کے نعرے لگائے جائیں گے؟

افغانستان کی وزارت داخلہ کی سربراہی سراج الدین حقانی کر رہے ہیں۔ یعنی موجودہ افغان وزیر برائے امور داخلہ وہ ہیں، جو امریکا کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت مطلوب ہیں۔ حقانی نے کہا کہ مذکورہ قواعد کی خلاف ورزی کی صورت میں احتجاج یا مظاہرہ کرنے والوں کو ‘سخت قانونی نتائج‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پابندیوں کا نشانہ کون؟

ان پابندیوں کا نشانہ بنیادی طور پر وہ خواتین تھیں جو ایکٹیوسٹس ہیں اور جوان بنیاد پرست مسلمانوں کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے طالبان مخالف مظاہروں کا ہراول دستہ ہیں۔ کابل میں مقیم خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن محبوبے نسرین نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،” ہم اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کرتے رہیں گے۔ سرکاری اجازت کے بغیر بھی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،”طالبان کی زیر قیادت وزارت داخلہ نے ابھی کام صحیح سے شروع بھی نہیں کیا۔ ہم ان سے کیوں اجازت مانگیں؟ یہ امر واضح ہے کہ وہ ہمیں اجازت نہیں دیں گے جبکہ انہیں پتا ہے کہ ہم کیوں اکٹھا ہو رہے ہیں۔‘‘

نسرین ستمبر کے اوائل سے ہی کابل میں مظاہروں کی منتظم ہیں۔ حالیہ مظاہرے میں انہیں طالبان نے گرفتار کر لیا تھا۔ نسرین کے بقول،” انہوں نے میرے ڈیٹا کو ایک سسٹم میں ڈالا اور مجھے مظاہرے کے انعقاد سے باز رہنے کو کہا۔ مگر میں رکنے والی نہیں۔ اگر ہم لڑیں گے نہیں تو اس کا مطلب ہوا ہم ہار گئے۔‘‘

افغان خواتین کیلئے مشکل راہ

طالبان کے قبضے کے بعد سے افغانستان کی خواتین کو انتقامی کارروائیوں اور اپنے حقوق کے خلاف مزید پابندیوں کا خوف ہے۔ جب یہ انتہا پسند گروپ آخری بار برسر اقتدار آیا تھا، تب یعنی 1996ء سے 2001 ء تک ، اس نے خواتین کو تعلیم سے محروم کیا اور انہیں عوامی زندگی سے بالکل نکال دیا تھا۔ اب دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے خواتین کے حقوق کے احترام کا وعدہ تو کیا ہے مگر محض شریعت کے اپنے نظریے اور اس کی تشریح کے مطابق۔ انتہا پسند طالبان نے خواتین کے امور کی وزارت کو فوری طور سے ختم کر دیا۔ یہ خواتین کے لیے ایک دشوار راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔ طالبان کی نئی حکومت میں تمام مرد اراکین شامل ہیں وہ بھی انتہا پسند ‘ ملاؤں‘ کی اکثریت پر مشتمل۔ یہاں تک کہ وزارت تعلیم میں کسی خاتون کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔

گزشتہ حکومت کے دور میں کابل یونیورسٹی میں بحیثیت لکچرر کام کرنے والی ایک خاتون نے خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو اگست کے اواخر میں بتایا تھا کہ طالبان نے یونیورسٹیوں کے کاموں کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے صرف مرد اساتذہ کو صلاح و مشورے کے لیے مدعو کیا۔ انہوں نے بتایا،”اس اہم فیصلہ سازی میں خواتین کی شرکت کو منظم طریقے سے روکا جا رہا ہے۔ طالبان کے وعدوں اور فعل میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔‘‘

گرچہ طالبان کے قائم مقام وزیر تعلیم عبدالباقی حقانی نے حال ہی میں کہا تھا کہ خواتین کو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہوگی تاہم مخلوط کلاسوں پر پابندی ہو گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں