اشرف غنی کے اچانک فرار ہونے سے کابل طالبان کے ہاتھوں میں گیا، زلمے خلیل زاد

کابل (ڈیلی اردو/بی بی سی) امریکہ کے افغانستان کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ صدر اشرف غنی کے اچانک چلے جانے سے کابل بغیر باقاعدہ کسی سیاسی منتقلی کے طالبان کے ہاتھوں میں چلا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اشرف غنی کے اس اچانک فیصلے سے طالبان کے ساتھ اتحاد ٹوٹ گیا جس کا مقصد اس گروپ کو سیاسی منتقلی سے قبل اقتدار سے دور رکھنا تھا تاکہ وہ کابل سے باہر رہیں۔

افغانستان کے طالبان کے ہاتھوں میں چلے جانے کے بعد بین الاقوامی میڈیا کو دیے گئے پہلے انٹرویو میں امریکی ایلچی خلیل زاد کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور افغان قیادت کے ساتھ بات چیت بھی ختم ہوگئی ہے۔ افغان حکومت کے خاتمے اور افغانستان کے غیر یقینی مستقبل کی وجہ طالبان ہیں۔

زلمے خلیل زاد کے کے ذریعے امریکہ کا طالبان کے ساتھ امن معاہدے تک پہنچا تھا۔

امریکی خصوصی ایلچی نے افغان حکومت کے آخری چند گھنٹوں کابل میں طالبان کے داخلے اور امریکہ کی پوزیشن پر بات کی۔

زلمے خلیل زاد کے مطابق ، اس منصوبے میں اشرف غنی سے کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں اگلی حکومت کے بارے میں فیصلہ ہونے تک کابل میں رہیں۔

خلیل زاد نے امریکی فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ محمد اشرف غنی کی 7 اگست کو کابل سے روانگی نے ایک سکیورٹی خلا پیدا کیا جس نے افغان طالبان کو کابل میں داخل ہونے کی ترغیب دی۔ انھوں نے کہا کہ اس اقدام سے سیکورٹی اہلکاروں اور شہریوں میں ابہام پیدا ہوا۔

زلمے خلیک زاد کا کہنا تھپا کہ دوحہ مذاکرات عملی طور پر ختم ہوچکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہم نے حال ہی میں طالبان سے اتفاق کیا تھا کہ ہم کابل میں داخل نہیں ہوں گے اور ہمیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اشرف غنی کابل چھوڑنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔‘

انٹرویو کے ایک اور حصے میں ، خلیل زاد نے ان افواہوں کی تردید کی کہ انھوں نے طالبان کے ساتھ صدارتی محل میں داخل ہونے پر اتفاق کیا تھا یا اسی کی اجازت دی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں