امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے جوہری آبدوزوں کے معاہدے پر چین اور فرانس سخت برہم

واشنگٹن (ڈیلہ ) چین اور فرانس نے امریکہ، برطانیہ کی جانب سے آسٹریلیا کو جوہری طاقت سے لیس آبدوزوں کی تیاری میں مدد کے معاہدے پر برہمی کا اظہار کیا ہے جس کے بعد وائٹ ہاؤس جمعرات کو کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرتا دکھائی دیا ہے۔

آکس (آسٹریلیا، یو کے، یو ایس) سے موسوم سیکیورٹی شراکت داری کے اس نئے معاہدے میں آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔

اگرچہ مذکورہ تینوں ممالک نے یہ نہیں کہا کہ اس معاہدے کا مقصد چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے لیکن تجزیہ کار اس اقدام کو عسکری میدان اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں چین کی بڑھتی ہوئی قوت کے مقابلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس نے جمعرات کو کہا ہے کہ ایک روز قبل جس شراکت داری کا اعلان کیا گیا تھا وہ کسی ایک ملک سے متعلق نہیں۔

پریس سیکریٹری جان ساکی نے کہا کہ یہ شراکت داری امریکہ کے دفاعی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے ہے جس میں انڈو پیسیفک علاقے میں امن اور استحکام کے فروغ کے لیے بین الاقوامی قاعدوں کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے۔

‘یہ معاہدہ پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے برابر ہے’

اس معاہدے کی وجہ سے آسٹریلیا نے فرانس کے ساتھ 43 ارب ڈالر کا وہ معاہدہ منسوخ کر دیا ہے جس کے تحت اسے دنیا کی سب سے بڑی، درجن بھر کنونشنل سب میرینز فراہم کی جانا تھیں۔

ان آبدوزوں کی جگہ آسٹریلیا نے امریکی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے جوہری طاقت سے لیس آبدوزوں کے حصول کا فیصلہ کیا ہے۔

آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم اسکاٹ موریسن نے کہا ہے کہ جب فرانس کے ساتھ 2016 میں معاہدہ کیا گیا تھا، تب امریکی ٹیکنالوجی دستیاب نہیں تھی۔

اس معاہدے کے بعد فرانس کے وزیرِ دفاع ژا ژیو یود گیان نے ‘فرانس انفو ریڈیو نیٹ ورک’ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے آسٹریلیا اور امریکہ پر تنقیدی کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ ہم نے آسٹریلیا کے ساتھ بھروسے والے تعلقات قائم کیے اور یہ بھروسہ توڑ دیا گیا ہے۔

فرانسیسی وزیرِ دفاع نے امریکہ کے صدر جو بائیڈن پر بھی تنقید کی اور انہیں منفی انداز میں اپنے پیش رو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح قرار دیا۔

ان کے بقول، “یہ سنگ دلانہ، یکطرفہ اور غیر متوقع فیصلہ ہمیں بہت کچھ یاد دلاتا ہے جو ماضی میں مسٹر ٹرمپ کیا کرتے تھے۔ میں اس پر نالاں اور برہم ہوں۔ ایسا اتحادیوں کے درمیان نہیں ہوتا۔”

فرانسیسی حکومت نے جمعرات کو واشنگٹن میں منعقدہ اس تقریب کو بھی احتجاجاً منسوخ کر دیا جسے وہ امریکہ کے ساتھ مل کر منا رہی تھی۔​

دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے کہا ہے کہ امریکہ اب بھی فرانس کو اپنا اہم اتحادی سمجھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم عالمی برادری کو درپیش متعدد مسائل کے حل میں فرانس کے ساتھ اپنے تعلقات اور اپنی شراکت داری کو اہمیت دیتے ہیں۔ چاہے یہ شراکت داری معاشی نمو سے متعلق ہو یا کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں یا دنیا بھر کی سلامتی سے متعلق۔

جین ساکی نے کہا کہ امریکہ اور فرانس کے درمیان شراکت داری کئی برسوں سے چلی آ رہی ہے۔ ان کے بقول وہ اس بارے میں وضاحت کا معاملہ اپنے اتحادی آسٹریلیا پر چھوڑتی ہیں کہ انہیں اس ٹیکنالوجی کی ضرورت کیوں پیش آئی۔

چین نے بھی برہمی کے ساتھ اس پیش رفت پر اپنا ردعمل دیا ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاو لیجان نے جمعرات کو بیجنگ میں پریس کانفرنس کے دوران خبردار کیا کہ مذکورہ معاہدہ علاقائی سلامتی اور امن کو گھمبیر نقصان پہنچاتا ہے۔

انہوں نے تینوں ملکوں (آسٹریلیا، برطانیہ، امریکہ) پر الزام عائد کیا کہ وہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ترجمان نے تینوں ملکوں پر زور دیا کہ وہ سرد جنگ کے دور کی ذہنیت ترک کر دیں۔

چین کے بیان کے ردِعمل میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ ان کا ملک پیپلز ری پبلک آف چائنہ کے ساتھ سخت تقابل کا خیر مقدم کرتا ہے۔ ہم کوئی تنازع نہیں دیکھ رہے۔ صدر بائیڈن نے چند روز قبل صدر ژی سے گفتگو کی ہے اور بلاشبہ ہم رہنماؤں کے درمیان اعلیٰ سطح کے مذاکرات اور رابطے برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

صدر بائیڈن نے گزشتہ روز ویڈیو لنک پر آسٹریلیا اور برطانیہ کے رہنماؤں کے ساتھ اجلاس میں شرکت کے موقع پر کہا تھا کہ آسٹریلیا کو جوہری طاقت سے لیس آبدوزوں کی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کا معاہدہ اہم ہے۔

صدر جو بائیڈن کے بقول “ہمیں اس قابل ہونا چاہیے کہ خطے کے موجودہ اسٹرٹیجک ماحول اور اس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نمٹ سکیں۔ آسٹریلیا کو آبدوزوں کی فراہمی کے اقدام کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کے پاس جدید صلاحیتیں موجود ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے کہ ہم تیزی سے بڑھتے ہوئے خطرات کے خلاف اپنا دفاع کر سکیں۔”

‘آسٹریلیا جوہری ہتھیار بنانے کا خواہش مند نہیں’

آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم اسکاٹ موریسن کہتے ہیں اُن کا ملک جوہری ہتھیاروں کا خواہش مند نہیں اور نہ ہی غیر فوجی جوہری استعداد کار چاہتا ہے۔

امریکہ کے صدر اور برطانوی وزیرِ اعظم کے ساتھ ویڈیو لنک پر گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے رہیں گے۔

بائیڈن انتظامیہ کے ایک اہل کار کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا کو ایٹمی آبدوزوں کی فراہمی کے لیے آئندہ برس 18 مئی کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے جس کے دوران تینوں ممالک ان آبدوزوں کی حوالگی کے مراحل پر کام کریں گے۔

برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ ان کا ملک آسٹریلیا کے ساتھ معلومات کے تبادلے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

یاد رہے کہ آسٹریلیا برطانیہ کی سابق نو آبادیات کا حصہ رہا ہے اور اب بھی کامن ویلتھ کا حصہ ہے۔ کامن ویلتھ ایک ایسی تنظیم ہے جس کی قیادت ملکہ الزبتھ دوئم کے پاس ہے۔

برطانوی وزیرِ اعظم نے کہا کہ آکس ممالک کے درمیان معاہدہ برطانیہ کی کئی نسلوں پر محیط مہارت کے حصول کا متقاضی ہے جو اس نے 60 برس قبل رائل نیوی کی پہلی نیوکلیئر سب میرین ایجاد کرتے ہوئے حاصل کی تھی۔

نئی شراکت داری تینوں ملکوں کے لیے اہم ٹیکنالوجی، جیسے کہ مصنوعی ذہانت، سائبر ٹیکنالوجی، کوانٹم ٹیکنالوجی، انڈر واٹر سسٹمز سمیت مختلف شعبوں میں معلومات اور مہارت کے تبادلے کو مزید آسان بنائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں