تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کی جانب سے معافی کی پیشکش مسترد کردی

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمد قریشی کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کو مشروط معافی دیے جانے کے بیان کے جواب میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا کہنا ہے کہ ‘معافی غلطی پر مانگی جاتی ہے اور ہم نے کبھی دشمن سے معافی نہیں مانگی۔‘

تحریک طالبان نے حکومت پاکستان کی جانب سے معافی کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے اپنے بیان میں ’دشمن کو‘ معافی دینے کی مشروط پیشکش کی ہے۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جہاد‘ نہ کرنے کے وعدے پر معافی ان کے لیے بے معنی ہے کیونکہ ‘معافی غلطی پر مانگی جاتی ہے جبکہ ہمارے جد و جہد کا مقصد پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔’

یاد رہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تحریک طالبان شدت پسندی کی کارروائیاں چھوڑ دیں اور ہتھیار ڈال دیں تو حکومت انھیں معاف کر سکتی ہے۔

اسی طرح صدر پاکستان عارف علوی نے چند روز پہلے ڈان نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی طالبان اگر اپنے نظریات چھوڑ کر پاکستان کے آئین اور قانون کے ساتھ چلنا چاہیں تو حکومت ان کے لیے معافی کا اعلان کر سکتی ہے۔

طالبان کی جانب سے معافی کی جوابی پیشکش

پاکستان کے سکیولر رہنماؤں اور فوجی قیادت کو مخاطب کر کے ٹی ٹی پی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم نے کبھی دشمن سے معافی نہیں مانگی۔ ‘

تحریک طالبان نے حکومت پاکستان کی جانب سے معافی کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے اپنے بیان میں معافی دینے کی مشروط پیشکش کی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر ‘ملک میں شرعی نظام نافذ کرنے کا وعدہ یا ارادہ کیا جائے تو ہم اپنے دشمن کے لیے معافی کا اعلان کر سکتے ہیں۔’

تحریک طالبان کے بیان میں پاکستان کے آئین پر بھی تنقید کی گئی ہے۔

کالعدم تنظیم کے بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر پاکستان کے سیکولر جمہوری رہنما اور فوجی ‘اسلام دشمن پالیسیوں’ پر عمل پیرا رییں گے تو ان کے خلاف ‘جہاد’ جاری رہے گا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کیا پیش کش کی تھی؟

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر کالعدم تحریک طالبان پاکستان شدت پسندی کی کارروائیاں چھوڑ دے اور ہتھیار ڈال دے تو حکومت انھیں معاف کر سکتی ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا ہے طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کی جیلوں سے ٹی ٹی پی کے کارکن رہا کر دیے گئے جن کی وجہ سے پاکستان کو خدشات ہیں۔

ان کا کہنا تھا ‘اگر وہ لوگ یہاں آ کر ہمارے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں تو اس سے معصوم زندگیوں پر اثر پڑے گا جو ہم نہیں چاہتے۔’

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ‘اگر طالبان اپنی دہشت گردانہ کارروائیں ترک کرتے ہیں اور حکومت کی رٹ کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں تو انہیں عام معافی دی جا سکتی ہے۔’

لیکن اگر وہ شدت پسند کارروائیاں جاری رکھتے ہیں تو یہ پاکستان کے لیے باعث تشویش ہو گا۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے افغان طالبان کے اس موقف کو مثبت قرار دیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ اپنی مٹی کو پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

صدر پاکستان کی جانب سے بھی استثنیٰ کا عندیہ

اس سے پہلے پاکستان کے صدر عارف علوی نے بھی کہا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ارکان اگر اپنی ‘مجرمانہ سرگرمیاں‘ ترک کر کے پاکستانی آئین کے سامنے ہتھیار ڈال دیں تو انھیں معافی دی جا سکتی ہے۔

پاکستانی چینل ڈان نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا ‘ٹی ٹی پی اب بھی ایک خطرہ ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی طالبان قیادت نے یہ پیغام دیا ہے کہ ‘ہم (افغان طالبان) انھیں یہاں (افغانستان) میں رہنے کی اجازت دیتے ہیں لیکن وہ پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔

صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ ‘یہ معافی امن کے قیام کا ایک راستہ ہو سکتا ہے۔’

کیا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ سمجھوتہ کرنا صحیح ہے؟

راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز سنگاپور میں ریسرچ فیلو کے طور پر کام کرنے والے عبدالباسط کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ‘امن مذاکرات تنازعات کو حل کرنے کا حتمی طریقہ ہے لیکن ابھی مذاکرات کے لیے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ ‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘پاکستان کو دہشت گردی کی موجودہ لہر پر قابو پانا ہوگا اور ایک مضبوط پوزیشن میں آ کر بات کرنی ہوگی۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ایسے میں جب افغانستان میں ہونے والی پیش رفت کی وجہ سے اسلام پسندوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے، ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی بھی سمجھوتہ بہت غلط اشارہ دے گا۔’

انھوں نے کہا کہ ‘پاکستان کو دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کے مسئلے پر کیسے آگے بڑھے گا۔’

اپنا تبصرہ بھیجیں