کراچی: سینئر صحافی وارث رضا کو حراست میں لے لیا گیا

کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے سینیئر صحافی وارث رضا کے مبینہ اغوا کے بعد پاکستانی صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے 23 ستمبر کو ملک گیر احتجاج کی کال دی ہے۔

وارث رضا کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ انھیں ’جمہوریت کی حمایت اور ہائبرڈ نظام کی مخالفت‘ کرنے پر حراست میں لیا گیا ہے۔

وارث رضا ان دنوں اردو روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہیں۔ وہ ماضی میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سرکردہ رکن اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے مرکزی سیکریٹری جنرل کے منصب پر فائز بھی رہ چکے ہیں۔

وارث رضا کی بیٹی اور عوامی ورکرز پارٹی کراچی کی سیکریٹری اطلاعات ام لیلیٰ رضا نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ یہ واقعہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب گلشن اقبال کے بلاک فور اے میں پیش آیا جب ان کے والد اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’رات پونے تین بجے کے قریب ایک سفید کرولا کار اور دو رینجرز کی گاڑیوں میں افراد آئے جن میں سول ڈریس والے نقاب پوش والد سے مخاطب ہوئے۔ انھوں نے ان کا نام، کہاں کام کرتے ہیں کی تصدیق کی۔ اس کے بعد ان کا موبائل فون اور بٹوا لیا اور کہا کہ تفتیش کے بعد انھیں چھوڑ دیں گے۔‘

لیلیٰ رضا کے مطابق ان کے والد کو اپنے ساتھ لے جانے والے افراد نے انھیں یہ نہیں بتایا کہ وہ کون ہیں اور ان کے والد کو کیوں حراست میں لیا گیا ہے تاہم ’کچھ دیر کے بعد والد کا فون آیا کہ انھیں تفتیش کے لیے لے کر جا رہے ہیں اور یہ کہ ان کے دوستوں کو مطلع کر دیا جائے۔ ایک گھنٹے کے بعد بہن کو والد کا فون آیا کہ وہ ایک گھنٹے میں واپس آجائیں گے لیکن وہ تاحال واپس نہیں آئے۔‘

وارث رضا کے اہلخانہ کی جانب سے تاحال اس سلسلے میں پولیس سے رابطہ نہیں کیا اور اس سلسلے میں لیلیٰ رضا کا کہنا تھا کہ والد کے ٹیلیفون پر رابطے کی وجہ سے انھوں نے سمجھا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ چھوڑ دیں۔ اسی لیے وہ تھانے نہیں گئے تاہم اب وہ اپنے وکیل سے رابطہ کر رہے ہیں۔

کراچی میں مبینہ ٹاؤن پولیس نے واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے جبکہ سندھ رینجرز کے ترجمان سے موقف جاننے کی کوشش کی گئی لیکن ان کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

62 سالہ وارث رضا کی پانچ بیٹیاں ہیں۔ وہ گردے کے عارضے میں بھی مبتلا ہیں۔ لیلیٰ رضا کے مطابق گردے کی تکلیف کی وجہ سے وہ پندرہ روز ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ ’ان کے ساتھ اگر ناروا سلوک کیا گیا تو ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔‘

لیلیٰ نے بتایا کہ ان کے والد پاکستان میں مستحکم جمہوری نظام کے حمایتی ہیں۔ ’وہ موجودہ نظام کو ’ہائبرڈ‘ سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف ہیں۔ اس کے خلاف فیس بک پر پوسٹ لکھتے رہتے تھے اور پچھلے دنوں انھوں نے ایکسپریس میں ایک کالم بھی لکھا تھا۔ وہ سمجھتے ہیں انھیں اسی پاداش میں حراست میں لیا گیا ہے۔‘

وارث رضا نے 19 ستمبر کو روزنامہ ایکسپریس کیلئے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان ’جمہوریت دشمن اقدامات‘ تھا۔ اس میں وہ یہ تجویز دیتے ہیں کہ ’صحافی، وکلا، انسانی حقوق کی تنظیمیں، طلبہ، ٹریڈ یونین اور سیاسی جماعتوں کو ایک مشترکہ تحریک جوڑنی ہوگی تاکہ جمہوریت کو تلپٹ کرنے والے ’ہائیبرڈ نظام‘ کا مکمل صفایا کیا جاسکے۔‘

پی ایف یو جے نے وارث رضا کو ’حراست میں لیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی‘ کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر حکومت سمجھتی ہے کہ چند لوگوں کی گرفتاری یا ان کے خلاف مقدمات سے سیاہ قوانین کے لیے راہ ہموار ہو گی تو یہ ان خام خیالی ہے۔‘

کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) نے بھی سینیئر صحافی وارث رضا کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

کے یو جے کے صدر نظام الدین صدیقی اور جنرل سیکریٹری فہیم صدیقی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وارث رضا ایک سینیئر صحافی ہیں جو پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا میں مختلف اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔

’انھوں نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی ملک میں آزادی صحافت کی 70 سالہ جدوجہد کو کتابی شکل میں لانے کا اہم کام بطور مدیر انجام دیا ہے۔ وہ آزادی صحافت اور اظہار رائے کے لیے اٹھنے والی ہر تحریک میں ہر اوّل دستے کا حصہ رہے ہیں۔ ان کی گرفتاری انتہائی تشویشناک ہے۔‘

کے یو جی کے مطابق وہ اس مبینہ گرفتاری کو آزادی صحافت پر حملہ تصور کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ملک میں اس وقت ہر اس توانا آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے جو آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتا ہے۔

سینیئر صحافی مظہر عباس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وراث رضا کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق انھیں پولیس نے گرفتار نہیں کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں