پاکستان، چین اور روس کا طالبان پر جامع حکومت بنانے پر زور

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان، روس اور چین کے سفارتی نمائندوں نے منگل کے روز کابل میں طالبان کے قائم مقام وزیر اعظم سے ملاقات کی اور ایک جامع حکومت قائم کرنے پر زور دیا۔

کابل میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی سفیر محمد صادق، روس کے سفارت کار ضمیر کابولف اور چین کے سفارتی نمائندے یوی شی یونگ نے کابل کے دورے میں افغانستان کے قائم مقام وزیر اعظم محمد حسن اخوند اور سینئر عہدے داروں سے ملاقات کی، جس دوران امن، استحکام اور جامع حکومت کے قیام کے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔

طالبان کی نئی حکومت میں اس ملک کے تمام نسلی گروپس کی شمولیت بین الاقوامی برادری کے ساتھ ساتھ افغانستان کے تمام ہمسایہ ملکوں کا سب سے اہم مطالبہ ہے۔

گزشتہ ہفتے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر سائیڈ لائنز ملاقاتوں میں روس، چین، پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ نے افغانستان میں قومی مفاہمت کی ضرورت پر زور دیا جس کے ذریعے ایک جامع حکومت کا قیام عمل میں آ سکے اور وہ ملک کے تمام سیاسی اور نسلی گروپس کے مفادات کا خیال رکھ سکے۔
بی بی سی کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ‘اس کی وجہ سے طالبان کو آگے بڑھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اگر طالبان نے حکومت میں دوسرے فرقوں کو شامل نہ کیا تو جلد یا بدیر انہیں خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے’۔

“حکومت میں تمام گروپس کی شرکت اور خواتین کے حقوق کے وعدوں کے باوجود طالبان کی کابینہ وفاداروں پر مشتمل ہے جس میں اقلیتی گروپس کے کچھ لوگ تو ہیں لیکن کوئی خاتون شامل نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہو گا ایک غیر مستحکم اور ایک غیر منظم افغانستان جو دہشت گردوں کے لیے ایک مثالی جگہ ہو گی۔ یہ چیز پریشان کن ہے”۔

افغانستان کی صورت حال کے خطے پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

طالبان کابینہ کا دفاع کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی ایک گزشتہ پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ یہ ایک عبوری بندوبست ہے جو بعد میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے طالبان رہنماؤں نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ انہیں یہ منصوبہ قبول کرنے میں ہچکچاہٹ ہے۔

طالبان کے ایک لیڈر محمد مبین نے اتوار کو افغانستان کے آریانہ ٹی وی پر جامع حکومت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ”ہم کسی کو یہ حق نہیں دے سکتے کہ وہ ہمیں ایک جامع حکومت بنانے کے لیے کہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ”جامع حکومت سے ان لوگوں کا مطلب یہ ہے کہ طالبان ہمسایہ ملکوں کے جاسوسوں کو اپنی حکومت میں شامل کریں”۔
وسطی ایشیا میں افغانستان کا ایک ہمسایہ ملک تاجکستان بھی طالبان کے سخت ناقدین میں شامل ہے۔ تاجک نسل کے لوگ افغانستان کی کل آبادی کا 20 فی صد ہیں۔ یہ افغانستان کا واحد گروپ ہے جو طالبان کے گزشتہ اقتدار کے دور میں مسلسل ان کے خلاف مزاحمت کرتا رہا ہے۔ افغانستان کا قومی مزاحمتی اتحاد یعنی این آر ایف اے پنچ شیر میں قائم ہے۔

طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پنج شیر میں مزاحمت کو کچل دیا ہے، جب کہ اس گروپ کا کہنا ہے کہ اس کے جنگجو پہاڑوں میں چھپے ہوئے ہیں اور خود کو ایک طویل گوریلا جنگ کے لیے منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

طالبان کے ایک عہدے دار احمد اللہ متقی نے منگل کے روز پاکستانی، روسی اور چینی سفارت کاروں کی تصویریں توئٹ کرتے ہوئے کہا ہے اس ملاقات میں طالبان کے خارجہ امور اور مالیات کے قائم مقام وزرا بھی موجود تھے۔

کابل کے دورے کے دوران تینوں غیر ملکی سفارت کاروں نے سابق افغان صدر حامد کرزئی اور قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات کی۔

پاکستاان کے سفیر نے کہا ہے کہ یہ ملاقات افغانستان میں دیرپا امن اور استحکام لانے کی کوششوں کا ایک حصہ تھی۔

ایک اور خبر کے مطابق طالبان نے، جن کی حکومت کو ابھی تک کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا، دوحہ میں قائم اپنے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کو اقوام متحدہ کے لیے اپنا نیا سفیر نامزد کیا ہے۔ اور اقوام متحدہ سے درخواست کی ہے کہ وہ انہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے جاری سالانہ اجلاس میں عالمی رہنماؤں سے خطاب کرنے کی اجازت دے۔
یہ درخواست غور کے لیے اقوام متحدہ کی ایک خصوصی کمیٹی کے پاس جائے گی جس کا اقوام متحدہ کے جاری سیشن کے دوران اجلاس ہونے کی توقع نہیں ہے۔

طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے یہ درخواست اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے نام ایک خط میں پیر کے روز کی۔
اس سے قبل طالبان 1996 سے 2001 تک اقتدار میں تھے، جس دوران اقوام متحدہ نے اس حکومت کے نمائندے کو نشست برقرار رکھنے کی اجازت دی تھی جس کا طالبان نے تختہ الٹ دیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں