لاہور: عمر سکول سسٹم کی خاتون پرنسپل کو توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت سنا دی گئی

لاہور (ڈیلی اردو) لاہور کی ایک عدالت نے توہین رسالت کے مقدمے میں ایک مسلمان خاتون کو سزائے موت اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ فیصلے کے تحت مجرم اب سات روز کے اندر اندر اپنی سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کرسکتی ہے۔

خاتون پر سنہ 2013 میں تھانہ نشتر کالونی میں پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 295-C کے تحت توہین رسالت کے الزام میں ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایڈیشنل اینڈ سیشن جج منصور احمد قریشی نے سوموار کو کیس کا ٹرائل مکمل ہونے پر اپنے فیصلے میں یہ لکھا ہے کہ یہ بات عیاں ہے کہ ملزمہ (سلمیٰ تنویر) ذہنی طور پر معذور تھی ورنہ اس نے نہ اس طرح کا توہین آمیز مواد لکھا ہوتا اور نہ تقسیم کیا ہوتا۔ ’تاہم یہ سوال قابل غور ہے کہ آیا قانون کے تحت ایسی ذہنی بیماری ملزم کو ایسے سنگین جرم سے بری الذمہ قرار دینے کے لیے کافی ہے’۔

عدالتی فیصلے کے مطابق ’ملک کا قانون اتنی کم ابنارمیلیٹی کو تسلیم نہیں کرتا ہے’۔ فیصلے کے مطابق قانون کے اندر جس ابنارمیلٹی (ذہنی بیماری) کا ذکر ہے سلمیٰ تنویر کی بیماری اس پر پورا نہیں اترتی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا ہے کہ اس ملک میں فوجداری مقدمات میں ’کم ذہنی عدم توازن‘ کو ارتکاب جرم کے خلاف بطور دفاع استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ جو شخص وقوعہ کے وقت تک اپنا سکول بڑی مستعدی سے چلا رہا ہو اس کے متعلق یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ ذہنی بیمار تھا۔ ذہنی بیماری بطور دفاع صرف پی پی سی کے سیکشن 84 کے زمرے میں ہی آتی ہے جس کے تحت کوئی بھی ایسا اقدام جرم نہیں جو ایسے ملزم سے سرزد ہو جو ذہنی طور پر ٹھیک نہ ہو۔

مقدمے کی تفصیلات

یاد رہے کہ 2 ستمبر سنہ 2013 کو خطیب اور امام جامعہ مسجد بہادر آباد، نشتر کالونی، قاری افتخار نے پولیس کو اطلاع دی تھی کہ شام 6 بجے کے قریب سلمیٰ تنویر نے مبیبنہ طور پر توہین رسالت پہ مبنی مواد لکھ کر محلے میں تقسیم کیا۔ مدعی کے مطابق انھوں نے متعلقہ تھانے میں بھی وہ مواد جمع کروایا اور اس کے علاوہ انھوں نے سات فتوے بھی متعلقہ پولیس تھانے میں جمع کروائے تھے۔

ایف آئی آر کے مطابق سلمیٰ تنویر نامی خاتون پر الزام تھا کہ انھوں نے 2 ستمبر سنہ 2013 کو لاہور میں اپنی رہائش گاہ کے قریب ایک پمفلٹ شائع کیا اور تقسیم کیا تھا جس میں اس نے مبینہ طور پر ختم نبوت کی تردید کی تھی۔

پراسیکیوشن کے مطابق پمفلٹ میں مبینہ طور پر مسلمانوں کے آخری پیغمبر کے بارے میں توہین آمیز الفاظ بھی شامل تھے۔ استغاثہ کے مطابق مبینہ طور پر خاتون نے اپنی ’نبوت کا دعویٰ‘ بھی کیا اور ’خود کو رحمت العالمین‘ قرار دیا۔

ملزمہ کا دفاع

سلمیٰ تنویر پر 24 فروری سنہ 2014 کو فرد جرم عائد کی گئی جبکہ اس نے جرم صحت سے انکار کیا تھا۔ وکیل صفائی نے ڈیڑھ سال کی مدت گزرنے کے بعد درخواست کی تھی کہ ان کی مؤکلہ کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے۔

دوران سماعت مدعی مقدمہ نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ملزمہ نے اس کی مالی معاونت بند کردی تھی جس کی وجہ سے اس نے خاتون کے خلاف ایسی درخواست جمع کروائی تھی۔

ملزمہ کے وکیل نے عدالت میں اس بات کو دہرایا تھا کہ واقعہ کے وقت ملزمہ کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا۔ انھوں نے عدالت سے ملزمہ کے خلاف پی پی سی کے سیکشن 84 کے تحت کارروائی نہ کرنے کی استدعا کی تھی جس کے تحت کوئی بھی ایسا اقدام جرم نہیں جو ایسے ملزم سے سرزد ہو جو ذہنی طور پر ٹھیک نہ ہو۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ 24 اکتوبر سنہ 2014 کو یعنی واقعے کے ایک سال بعد پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کا ایک میڈیکل بورڈ بنا جس نے 14 مئی سنہ 2015 کو اپنی رپورٹ دی اور قرار دیا کہ خاتون شیزوفرینیا کا شکار ہیں اور اس وجہ سے ان کی موجودہ حالت مقدمہ چلائے جانے کے قابل نہیں ہے، بلکہ انھیں علاج کی ضرورت ہے۔

عدالت نے لکھا کہ واقعہ کے ایک مہینے کے بعد کنسلٹنٹ ڈاکٹر خالد محمود نے معائنہ کیا اور اپنی رپورٹ میں سلمیٰ تنویر کے متعلق لکھا کہ وہ ’باتونی بہت ہے، اس کا رویہ بے ترتیب ہے اور بولتے وقت ذہنی دباؤ کا شکار نظر آتی ہے‘۔

عدالت نے لکھا کہ اس سے یہ نہیں واضح ہوتا کہ خاتون جب یہ جرم سر انجام دے رہی تھی تو انھیں یہ پتا نہیں تھا کہ وہ کس طرح کے جرم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ بعد ازاں عدالت نے ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جس نے قرار دیا کہ ملزمہ کی ذہنی حالت ٹرائل کے لیے موزوں نہیں ہے۔

مقدمہ اگلے دو سال طوالت کا شکا رہا یہاں تک کہ میڈیکل بورڈ نے 13 جون سنہ 2019 کو بتایا کہ اب ملزمہ صحت مند ہے اور ٹرائل کے قابل ہے جس کے بعد 16 جولائی سے اس کا ٹرائل دوبارہ سے شروع ہوا۔

دفاع کے وکیل نے ایک بار پھر عدات سے التجا کی کہ واقعے کے وقت ان کے مؤکلہ کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی۔

دوران سماعت ملزمہ نے عدالت کو بتایا کہ وہ ختم نبوت پر یقین رکھتی ہیں لیکن سنہ 2013 میں حج کے موقعہ سے پہلے ان کا ذہنی توازن کھو چکا تھا اور اس لیے انھیں کچھ یاد نہیں کہ اس وقت کیا ہوا تھا۔ دوران سماعت خاتون نے کہا کہ اگر ان کی ذہنی بیماری کی وجہ سے انجانے میں ان سے کچھ غلط ہوگیا ہو یا انھوں نے کچھ غلط کہا ہو تو وہ اس پر شرمندہ ہیں اور اس پر معذرت خواہ ہیں۔ خاتون نے اپنے حق میں خود کو اور اپنے خاوند تنویر احمد کے علاوہ جیل حکام کے دو گواہ بھی پیش کیے تھے۔

پولیس کی تفتیش

پولیس کے تفتیشی افسران نے عدالت میں بتایا کہ انھوں نے قابل اعتراض مواد کے چار سیٹ پر مشتمل کل 404 صفحات، توہین آمیز الفاظ پر مشتمل 9 سیٹ کے کل 378 صفحات، پانچ اوریجنل (اصل) صفحات اور 980 کے قریب دیگر صفحات سلمیٰ تنویر کے سکول کے دفتر سے برآمد کیے تھے۔

تفتیشی افسر انسپکٹر محمد اعظم نے دوران سماعت بتایا کہ انھوں نے موقع پر جاکر ریکارڈ اکٹھا کیا اور خاتون کو گرفتار کیا۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے وہاں لوگوں کے بیان لیے لیکن خاتون کے شوہر اور دو بیٹوں سمیت خاندان کے کسی فرد سے اس کے متعلق پوچھ گچھ نہیں کی گئی تھی۔

اسی طرح پراسیکیوشن نے ٹرائل کے دوران کل 11 گواہان پیش کیے۔ شکایت کنندہ کے وکیل ایڈووکیٹ چوہدری نے دلیل دی کہ اسغاثہ نے اپنا مقدمہ زبانی اور دستاویزی شواہد کی روشنی میں ثابت کیا ہے جبکہ ملزم یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی ہیں کہ گستاخانہ مواد لکھنے اور تقسیم کرتے وقت وہ اپنے فعل کی نوعیت جاننے کے قابل نہیں تھیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ خاتون کے وکلا یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ مجرم جرم کرنے کے وقت ذہنی مریضہ تھی۔

عدالت نے قرار دیا کہ فوٹو کاپیز اور اوریجنل صفحات پر تحریر سلمیٰ تنویر کی ہی تھی۔ عدالتی فیصلے کے مطابق پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی (پی ایف ایس اے) نے بھی اپنی رپورٹ میں لکھا کہ وہ تحریریں سلمیٰ تنویر کی ہی ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ ان تحریروں میں کوئی رد و بدل نہیں کیا گیا تھا۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ سلمیٰ تنویر نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ سنہ 2013 میں حج پر جانے کا ارادہ رکھتی تھیں لیکن پھر ذہنی بیماری کی وجہ سے انھیں کچھ یاد نہیں کہ کیا ہوا لیکن انھوں نے بطور گواہ اور نہ ہی اپنے 342 سیکشن کے بیان میں اس بات سے انکار کیا کہ توہین آمیز مواد ان کی تحریر نہیں تھی۔

خاتون کے خاوند نے عدالت میں یہی کہا کہ انھیں اپنی بیوی کی ایسی کسی تحریر کا علم نہیں ہے اور یہ کہ سنہ 2013 کے جون اور جولائی میں ان کی بیوی کی ذہنی حالت بگڑ چکی تھی۔

سلمیٰ تنویر کے خاوند تنویر احمد نے عدالت کو بتایا کہ اپنی گرفتاری کے بعد ان کی بیوی نے انھیں جنرل پاور آف آٹارنی دی تھی کیونکہ سکول کی 11 مرلہ عمارت میں سے 6 مرلہ ان کے نام تھی جسے جنرل پاور آف اٹارنی کے بعد بیچا گیا تھا۔ تنویر احمد نے مزید بتایا تھا کہ ان کی بیوی سکول کا سارا نظام خود ہی دیکھ رہی تھیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مدعی کے وکیل ایڈووکیٹ چوہدری غلام مصفطی کا کہنا تھا کہ ان کا مقدمہ تھا ہی یہی کہ وہ توہین آمیز مواد سلمیٰ تنویر نے ہی لکھا اور اسے تقسیم کیا تھا۔

ایڈووکیٹ غلام مصطفیٰ کے مطابق ملزم کی طرف سے بیماری کے متعلق یہ سب دعوے اس وقت کیے گئے جب ان کی ضمانت ہائی کورٹ یہاں تک کہ سپریم کورٹ سے بھی مسترد ہوچکی تھی۔ غلام مصطفیٰ کے مطابق اس جرم سے پہلے سلمیٰ تنویر کامیابی سے اپنا سکول کافی عرصے سے چلا رہی تھیں۔

ایڈووکیٹ غلام مصطفیٰ کے مطابق ملزم کی طرف سے کوئی ایک ایسی دستاویز بھی عدالت میں پیش نہیں کی گئی جس سے یہ ثابت ہوتا کہ سلمیٰ تنویر وقوعہ سے پہلے بھی کسی ذہنی بیماری میں مبتلا تھیں اور ان کا کہیں علاج چل رہا تھا۔

مدعی کے وکیل کے مطابق ملزم کو اپنے دفاع کا بھرپور موقع دیا گیا اور اگر وہ خاتون ذہنی مریضہ ہوتیں تو کٹہرے میں بطور اپنا گواہ خود ہی کیوں پیش ہوتیں۔

معروف قانون دان اور سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزمہ کو اس سزا کو ہائی کورٹ میں فوری چیلنج کرنا چاہیے کیونکہ ان کے بقول بظاہر اس کیس کی اپیل کا فیصلہ ملزمہ کے حق میں آسکتا ہے کیونکہ اس میں اتنی گنجائش موجود ہے۔

عابد ساقی کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے خود ہی تسلیم کیا ہے کہ اس کیس میں مجرم کی ذہنی حالت پوری طرح ٹھیک نہیں تھی جس کا فائدہ انھیں اپیل میں ہوسکتا ہے۔ عابد ساقی کا مزید کہنا تھا کہ ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس منظور ملک نے ملزموں کی ذہنی حالت کے متعلق ایک بڑا اہم فیصلہ دیا ہے اور اپیل میں ملزم پارٹی ان قانونی نقطوں پر انحصار کر سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں