امریکی سینیٹ میں پاکستان مخالف بل تعاون کی روح کے منافی ہے، دفتر خارجہ

اسلام آباد (ویب ڈیسک) دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار احمد نے کہا کہ حال ہی میں امریکی سینیٹ میں پیش کیے گئے بل میں پاکستان کے بارے میں بلاجواز حوالہ جات کو 2001 سے اب تک پاکستان اور امریکا کے درمیان ہونے والے تعاون کی روح کے منافی سمجھتے ہیں۔

ترجمان نے بدھ کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ واشنگٹن میں میڈیا اور کیپیٹل ہل دونوں میں افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے حوالے سے حالات کا جائزہ لینے کی غرض سے بحث جاری ہے، امریکی سینیٹ میں ریپبلکنز کے ایک گروپ کی جانب سے پیش کردہ قانون کا مسودہ اس بحث کا رد عمل معلوم ہوتا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ قانون سازی میں پاکستان کے بارے میں حوالے شامل کیے گئے ہیں وہ مکمل طور پر غیرضروری ہیں، ایسے تمام حوالہ جات کو افغان عمل میں سہولت کاری سمیت 2001 سے لے کر اب تک پاکستان اور امریکا کے درمیان ہونے والے تعاون کی روح کے منافی سمجھتے ہیں۔

عاصم افتخار نے باور کرایا کہ پاکستان نے افغانستان میں سہولت کاری کے ساتھ ساتھ اگست میں افغانستان سے امریکی اور دیگر شہریوں کے انخلا میں بھی مدد کی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان کے تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور افغانستان پائیدار امن کے حصول کا واحد حل جامع سیاسی مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں دہشت گردی کے کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور امریکا کے درمیان پائیدار سیکیورٹی تعاون اہمیت کا حامل رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی مجوزہ قانون سازی کے اقدامات غیر معقول اور غیر نتیجہ خیز ہیں۔

بائیس امریکی سینیٹرز نے پیر کو سینیٹ میں ایک بل پیش کیا جس میں سقوط کابل سے پہلے اور بعد میں اور وادی پنجشیر میں طالبان کے حملے میں پاکستان کے مبینہ کردار کا جائزہ لینے کی سفارش کی گئی ہے۔

سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے رکن سینیٹر جم ریش اور دیگر ریپبلیکنز نے سینیٹ میں افغانستان انسداد دہشت گردی، نگرانی اور احتساب ایکٹ متعارف کرایا تاکہ جو بائیڈن انتظامیہ کے ’افغانستان سے جلدی اور تباہ کن انخلا‘ سے متعلق نمایاں مسائل کو حل کیا جاسکے۔

مجوزہ قانون سازی اس بارے میں ایک جامع رپورٹ کا مطالبہ کرتی ہے کہ افغانستان میں امریکا کے 20 برس کے دوران طالبان کی حمایت، اگست کے وسط میں کابل پر قبضہ کرنے میں عسکریت پسندوں کی مدد اور وادی پنج شیر پر حملے کی حمایت کس نے کی۔

مجوزہ قانون سازی میں سیکریٹری آف اسٹیٹ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ سیکریٹری دفاع اور نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر سے مشاورت کرکے متعلقہ کانگریس کمیٹیوں کو ان تنظیموں کے بارے میں رپورٹ پیش کرے جو طالبان کو مدد فراہم کرتی ہیں۔

پہلی رپورٹ میں 2001 سے 2020 کے درمیان طالبان کے لیے حکومتِ پاکستان سمیت ریاستی اور غیر ریاستی اداکاروں کی معاونت کا خاکہ پیش کیا جائے گا جس میں ٹریننگ، لیسنگ اور ٹیکٹیکل، آپریشن یا اسٹریٹجک سمیت دیگر امور ہیں۔

اس قانون میں ’وادی پنج شیر اور افغان مزاحمت کے خلاف ستمبر 2021 کے طالبان کے حملے کے لیے حکومتِ پاکستان سمیت ریاستی اور غیر ریاستی اداکاروں کی حمایت کا احاطہ ہوگا‘۔

مجوزہ بل میں طالبان اور دیگر افراد پر افغانستان میں دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ غیر ملکی حکومتوں سمیت طالبان کو مدد فراہم کرنے والوں پر بھی پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

بل میں کہا گیا کہ امریکا، طالبان کے کسی رکن کو واشنگٹن میں یا اقوام متحدہ میں افغانستان کے سفیر کے طور پر تسلیم نہیں کرے گا اور جنگ زدہ ملک پر غیر انسانی بیرونی امداد پر پابندیاں عائد کرے گا۔

اس میں طالبان کی حمایت کرنے والے اداروں کی غیر ملکی امداد کا جامع جائزہ لینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں