کابل (ڈیلی اردو/روئٹرز/اے پی) افغانستان کے شہر قندوز کی ایک شیعہ مسجد میں ہونے والے خودکش حملے میں ہونے والی ہلاکتیں ایک سو سے زائد ہو گئی ہیں۔ ہلاکتوں کی تصدیق طالبان حکام نے کر دی ہے۔
ایک سینیئر طالبان اہلکار اور قندوز پولیس کے نائب سربراہ دوست محمد عبیدہ کا کہنا ہے کہ مسجد کے اندر ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں زیادہ تر افراد کی موت ہو گئی ہے۔ ابھی تک کسی گروپ نے اس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
خوفناک حملہ
افغانستان میں سے امریکی اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی افواج کے انخلا کے بعد اس حملے کو سب سے ہولناک حملہ قرار دیا گیا ہے۔ غیر ملکی افواج رواں برس اگست میں افغان سرزمین کو چھوڑ گئی تھیں۔
خودکش حملہ قندوز کے علاقے خان آباد کی شیعہ مسجد غذر سیا آباد میں جمعے کی نماز ادا کرنے والے نمازیوں پر کیا گیا، جو نماز جمعہ کی ادائیگی میں مصروف تھے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملے کے بعد مسجد کا اندرون حصہ خون اور انسانی اعضا سے بھرا ہوا تھا۔
په کندز کې د چاودنې تازه جزئيات:
د کندز په خان اباد بندر کې دنن ورځی په چاودنه کې ۴۶ ولسی وګړی په شهادت رسيدلی او۱۴۳ نور ټپيان شوي دی۔سيمه دامنیتی ځواکونو په کنټرول کی ده او څيړنی روانی دی.
حال په ویدیو کې… pic.twitter.com/iMiyExEWDf— Bakhtar News Agency (@BakhtarNA) October 8, 2021
طبی ذرائع نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے کیونکہ بہت سے زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔
Mosque blast kills 'many' in Afghanistan, say Taliban
According to the local Salam Afghanistan radio, about 100 worshipers were killed and more than 200 others injured in the blast https://t.co/gn01Tgc9PG pic.twitter.com/v8e2J6hvEg
— ANADOLU AGENCY (@anadoluagency) October 8, 2021
ہلاکتوں کی تصدیق اقوام متحدہ کے مقامی دفتر نے بھی کر دی ہے۔ بڑے دھماکے کے بعد کئی چھوٹے دھماکے بھی سنائی دیے۔
The UN family in #Afghanistan is deeply concerned by reports of very high casualties in an attack today in Sayyidabad Shia Mosque, #Khanabad, #Kunduz. Initial information indicates more than 100 people killed and injured in a suicide blast inside the mosque. 1/2
— UNAMA News (@UNAMAnews) October 8, 2021
اطلاعات کے مطابق حملہ آوروں نے کچھ نمازیوں کے سروں کو تن سے جُدا کر کے بیگ میں ڈال کر مختلف مقامات پر پھینک دیا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ سکیورٹی دستے متاثرہ مقام پر پہنچ چکے ہیں اور صورت حال کو اب کنٹرول کر لیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اتوار کو بھی افغانستان میں مسجد میں دھماکہ ہوا تھا۔ دارالحکومت کابل میں مسجد میں ہونے والے دھماکے اس دھماکے میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اتوار کو ہونے والا دھماکہ اس وقت ہوا تھا جن طالبان کے عبوری نائب وزیرِ اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد کی والدہ کے انتقال پر اتوار کو کابل کی عید گاہ مسجد میں تعزیتی اجلاس جاری تھا۔
طالبان نے کابل کی مسجد کے باہر ہونے والے دھماکے کے بعد جوابی کارروائی میں داعش کے متعدد ارکان کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ دھماکے کے ای روز بعد پیر کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ طالبان نے کابل کے شمالی علاقے خیر خانہ میں داعش کے ٹھکانوں پر کارروائی کی ہے جس کے نتیجے میں متعدد جنگجو مارے گئے۔
اس سے قبل داعش نے 26 اگست کو کابل ایئرپورٹ کے باہر ہونے والے دھماکے کی ذمے داری قبول کی تھی جس میں 200 افغان شہری اور 13 امریکی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
حالیہ دھماکہ طالبان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئے ہیں۔ قبل ازیں طالبان بھی 20 سالہ افغان جنگ کے دوران اس طرح کے حملے کرتے رہے ہیں جب کہ داعش نے بھی حملوں کا وہی طریقہ اختیار کیا ہے۔
امریکہ کی جانب سے 2019 میں داعش کے خلاف بمباری کے نتیجے یہ شدت پسند تنظیم کمزور ہو گئی تھی البتہ 2020 میں اس نے افغانستان میں دوبارہ اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔
اسلام اسٹیٹ کے حملے
افغانستان میں سرگرم دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ گزشتہ مہینوں میں شیعہ آبادیوں پر حملے کرتی رہی ہے۔ قندوز کی شیعہ مسجد پر حملے کے حوالے سے بھی انگلیاں اسلامک اسٹیٹ کی جانب اٹھ رہی ہیں۔
افغانستان کے حالات و واقعات پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قندوز کے حملے سے طالبان کی حکومت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج سامنے آ گیا ہے اور یہ دولتِ اسلامیہ (اسلامک اسٹیٹ) کا ہے جو بظاہر بکھری ہوئی ہے لیکن اب وہ بتدریج اپنی قوت کو جمع کرنے کی کوشش میں ہے۔