کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ حافظ سعد رضوی کی رہائی کا حکم

لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے) سپریم کورٹ تین ججز پر مشتمل نظر ثانی بورڈ نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیر حافظ سعد رضوی کی نظر بندی میں توسیع سے متعلق درخواست پر تین رکنی نظر ثانی بورڈ کی طرف سے توسیع کی وجوہات دریافت کرنے پر پنجاب حکومت نے اپنی درخواست واپس لے لی ہے۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی نظر ثانی بورڈ جس کے سربراہ جسٹس مقبول باقر ہیں۔ بورڈ میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس نور لاامین بھی شامل تھے۔

واضح رہے کہ جن لوگوں کی چھ ماہ سے زائد نظر بندی میں توسیع درکار ہوتی ہے۔ ان سے متعلق فیصلہ سپریم کورٹ کا نظر ثانی بورڈ کرتا ہے۔

پنجاب حکومت کی جانب سے سعد رضوی کے نظر بندی میں توسیع کی درخواست واپس لیے جانے کے بعد ڈپٹی کمشنر لاہور نے اُن کی نظر بندی ختم کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر لاہور محمد عمر شیر کے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سعد رضوی کی نظر بندی انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت کی گئی تھی۔ سعد رضوی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ریویو بورڈ کا اجلاس ہوا جس کے بعد ان کی نظر بندی ختم کی جا رہی ہے۔

ڈپٹی کمشنر لاہور کے مطابق سعد حسین رضوی کی رہائی کے احکامات پر فوری عمل ہو گا۔

واضح رہے کہ وفاقی نظرِ ثانی بورڈ میں ٹی ایل پی کے سربراہ حافظ سعد رضوی کی نظر بندی میں توسیع کے معاملے پر پنجاب حکومت کی درخواست پر سماعت سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہوئی۔

نظر ثانی بورڈ نے ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت کی جس میں بورڈ نے کہا کہ اگر سعد رضوی کسی اور کیس میں مطلوب نہیں تو انہیں رہا کر دیا جائے۔

نظر ثانی بورڈ نے مزید کہا کہ جب ہائی کورٹ نے نظر بندی کالعدم کی تو کن بنیادوں پر نظر بندی میں توسیع مانگی جا رہی ہے؟

واضح رہے کہ سعد رضوی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت رواں ہفتے تیسری بار نظر بند کیا گیا تھا۔

سعد رضوی اپنے والد خادم حسین رضوی کے انتقال کے بعد ٹی ایل پی کے سربراہ بنے تھے جو رواں برس 12 اپریل سے کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قید ہیں۔ اُن کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی دفعات سمیت مختلف نوعیت کے مقدمات درج ہیں۔

ماہرِ قانون اور سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کہتے ہیں کہ عدالتِ عظمٰی نے سعد حسین رضوی کی نظر بندی سے متعلق کہا کہ قانون کے مطابق کسی بھی شخص کی بار بار نظر بندی نہیں کی جا سکتی۔ قانون کے مطابق کسی بھی شخص کی نظر بندی تین ماہ یا چھ مہینے تک کی ہو سکتی البتہ اِس کو بار بار دہرایا نہیں جا سکتا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سعد رضوی کے خلاف مقدمات کی کیا نوعیت ہے۔ اِس بارے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر تو پولیس نے اُن پر درج کیے گئے مقدمات کے تحت سعد حسین رضوی کی گرفتاری کی ہے تو اُنہیں ضمانت لینا پڑے گی۔

سینئر وکیل سپریم کورٹ اعظم نذیر تارڑ بتاتے ہیں کہ اگر پولیس کی اُن کے خلاف درج کیے گئے مقدمات میں گرفتاری نہیں کی ہے تو وہ رہا ہو سکتے ہیں۔

ماہرِ قانون اور سینئر وکیل اظہر صدیق سمجھتے ہیں کہ جہاں تک بات ہے حافظ سعد حسین رضوی کی نظر بندی کی تو اُس میں عدالت کے احکامات واضح ہیں کہ وہ اِس کو مزید نہیں بڑھا سکتے۔ جب کہ باقی کیسز کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کا فیصلہ موجود ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اظہر صدیق نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ جب تک کسی شخص کے خلاف کوئی واضح ثبوت نہیں ہیں تو اُس کو حراست میں نہیں رکھا جا سکتا۔

اظہر صدیق کے مطابق حکومت نے جتنا عرصہ سعد حسین رضوی کو حراست میں رکھنا تھا وہ رکھ لیا ہے۔ اِس کے بعد حکومت کے پاس کوئی ایسی وجوہ نہیں ہے جس کے تحت اُنہیں مزید نظر بند کیا جا سکے۔

سعد رضوی سے متعلق درج کیے گئے دیگر کیسز کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ اگر حکومت نے اُن کی گرفتاری کرنی ہوتی تو کب کی کر چکی ہوتی جس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت شاید اب اُن کی گرفتاری نہیں کرنا چاہتی۔

اُنہوں نے کہا کہ حکومت سعد رضوی کے معاملے کو طول بھی اِسی لیے دے رہی تھی کہ حکومت کے پاس سعد رضوی کے خلاف ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ اُن کے مطابق اگر حکومت کے پاس سعد رضوی کے خلاف ٹھوس شواہد ہوتے تو وہ کبھی بھی نظر بندی کی طرف نہ جاتی۔

گزشتہ برس فرانس میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا جسے حکومت کے ساتھ 16 نومبر 2020 کو معاہدے کے تحت ختم کر دیا گیا تھا۔

معاہدے میں کہا گیا تھا کہ حکومت فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے متعلق تین ماہ میں پارلیمنٹ میں قرار پیش کرے گی اور پاکستان فرانس میں اپنا سفیر مقرر نہیں کرے گا۔

بعد ازاں ٹی ایل پی نے جنوری میں حکومت کو خبردار کیا تھا کہ کہ اگر سترہ فروری تک فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکالنے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا تو وہ اپنا احتجاج دوبارہ شروع کیا جائے گا۔

مطالبات کی عدم منظوری پر ٹی ایل پی نے 16 فروری کو اسلام آباد کی طرف مارچ اور احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت رواں سال 20 اپریل تک فرانس کے سفیر کو نکالنے سے متعلق قرار داد پارلیمنٹ میں پیش کی جانی تھی۔

مطالبات کی عدم منظوری اور معاہدے پر عمل درآمد نہ کیے جانے پر ٹی ایل پی نے 20 اپریل کو پاکستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا تھا جس کے بعد امن وامان میں خلل کے شبے کے پیشِ نظر حکومت نے سعد رضوی کو حراست میں لیا تھا۔

ٹی ایل پی کے کارکنوں نے پاکستان بھر میں اُن کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا۔ یاد رہے سعد رضوی کے خلاف پنجاب میں مختلف مقدمات درج ہیں جن میں دہشت گردی کی دفعات سمیت دیگر دفعات لگائی گئی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں