کوئٹہ (ڈیلی اردو) صوبہ بلوچستاں کے علاقے حب میں کار قریب دھماکے سے نجی ٹی وی کے صحافی ہلاک ہوگئے۔
Journalist #ShahidZehri is killed in bomb blast in Hub district of #Balochistan#FreedomNetwork condemns murder of journalist and demands @jam_kamal to bring perpetrators of this heinous crime to #justice #JournalismIsNotACrime pic.twitter.com/REFOLolhHb
— Freedom Network (@pressfreedompk) October 11, 2021
عیدگاہ تھانے کے ایس ایچ او ندیم حیدر کا کہنا تھا کہ 35 سالہ شاہد زہری نجی ٹی میٹر ون نیوز سے منسلک تھے اور حب میں گاڑی میں جارہے تھے کہ حملہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اطلاعات ہیں کہ دیسی ساختہ بم دھماکا تھا۔
شدید زخمی ہونے والے شاہد زہری اور دوسرے زخمی کو ابتدائی طور پر حب سول ہسپتال منتقل کیا گیا بعد ازاں رتھ فاؤ سول ہسپتال کراچی لایا گیا جہاں شاہد زہری دم توڑ گئے۔
بلوچستان: حب شہر میں کار میں دھماکا، میٹرو ٹی وی کے رپورٹر شاہد زہری ہلاک ہوگئے، دوسری جانب کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ ترجمان نے دعوی کیا ہے کہ ایم آئی کا آلہ کار شاہد زہری 2008 سے صحافی کے بھیس میں بلوچ تحریک کیخلاف سرگرم عمل تھا۔ #ShahidZehri pic.twitter.com/OyvWPtejmA
— Shabbir Hussain Turi (@ShabbirTuri) October 10, 2021
واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ گاڑی جیسے ہی سڑک سے موڑ کاٹنے کے بعد روانہ ہوتی ہے تو اسی دوران دھماکہ ہو جاتا ہے۔
دوسری جانب بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا کہ بی ایل اے کے ’سرمچاروں نے آج دس اکتوبر کو حب شہر میں شاہد زہری کو ایک بم حملے میں نشانہ بنا کر ہلاک کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’صحافی 2008 سے بلوچ تحریک کے خلاف سرگرم عمل تھا۔ پاکستانی خفیہ ایجنسی ایم آئی کے لیے کام کر رہا تھا۔‘
یاد رہے کہ رواں برس مارچ میں سکھر میں ایک نجی نیوز ٹی وی چینل سے منسلک صحافی کو گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق رائل نیوز ٹی وی سے وابستہ اجے لالوانی پر مسلح افراد نے اس وقت حملہ کیا جب وہ ایک حجام کی دکان پر بیٹھے تھے۔
حملے کے نتیجے میں صحافی زخمی ہوئے تھے جس پر انہیں سکھر کے سول ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ دورانِ علاج دم توڑ گئے تھے۔
رواں برس فروری میں کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کی میڈیا فریڈم رپورٹ 2020 میں انکشاف کیا گیا تھا کہ صرف 2020 میں 10 صحافیوں کو قتل کیا گیا اور دیگر کئی صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی کے دوران دھمکیاں دی گئیں، اغوا کیا گیا، تشدد اور گرفتار کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تشدد اور صحافیوں کے قتل میں ملوث افراد کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور بظاہر ان افراد کو استثنیٰ حاصل ہے۔
میڈیا فریڈم رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ‘یہ انتہائی تشویش کا معاملہ ہے کہ ملک کا قانونی نظام صحافیوں کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی میں ناکام ہوگیا ہے’۔