سرینگر: ٹارگٹ کلنگ کے واقعات؛ کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی

سری نگر (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) بھارتی کشمیر میں چند ہندوؤں کے قتل کے بعد حکام کی جانب سے کشمیریوں کو حراست میں لینے کا سلسلہ جاری ہے۔ مبصرین کے مطابق کشمیر میں گرفتاریاں کوئی نئی بات نہیں تاہم خوف کے سبب کشمیری پنڈت پھر سے ہجرت کر رہے ہیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 12 اکتوبر منگل کے روز بھی تین افراد ہلاک کر دیے گئے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کا دعوی ہے کہ گزشتہ رات سے اب تک تصادم میں تین شدت پسند مارے گئے ہیں اور بعض مقامات پر اب بھی آپریشن جاری ہے۔

گزشتہ ہفتے جب اقلیتی برادری کے تین ہندوؤں اور ایک سکھ استاد کو قتل کیا گيا تو پورے ملک میں کہرام سا مچ گيا۔ وادی کشمیر کی پوری انتظامیہ حرکت میں آ گئی اور پولیس نے اس سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے سینکڑوں کشمیریوں کو گرفتار کر لیا۔

بڑے پیمانے پر کشمیریوں کی گرفتاریاں

بھارتی ذرائع ابلاغ میں جو خبریں شائع ہوئی ہیں ان کے مطابق 11 اکتوبر پیر کی رات تک اس سلسلے میں مختلف علاقوں سے تقریبا سات سو کشمیریوں کو حراست میں لیا گيا تھا جبکہ اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ پولیس نے ابھی تک یہ ظاہر نہیں کیا ہے کہ آخر ان ہلاکتوں کے پیچھے کون ہے، تاہم انہی افراد کو حراست میں لیا جا رہا ہے، جن کا تعلق جماعت اسلامی سے یا پھر کسی علیحدگی پسند کشمیری تنظیم سے ہے۔

سکیورٹی فورسز کا دعوی ہے کہ کشمیر میں اقلیتی طبقے میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیے شدت پسند ہدف بنا کر قتل کر رہے ہیں۔ لیکن پولیس کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اس برس کشمیر میں جن 28 افراد کو ہدف بنا کر قتل کیا گيا اس میں ہندوؤں کی تعداد محض سات ہے۔

کشمیر میں گرفتاری کوئی نئی بات نہیں

سوال یہ اٹھتا ہے کہ اچانک کشمیر میں اتنا ہنگامہ کیوں برپا ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کو حراست میں کیوں لیا جا رہا ہے؟ کشمیر کے معروف صحافی الطاف حسین کہتے ہیں کہ کشمیر میں سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا جانا معمول کا عمل ہے اور، ’’یہاں یہ چلتا رہتا ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت انہوں نے کہا، ’’دفعہ 370 کے خاتمے کے وقت تو اس سے بھی زیادہ گرفتاریاں ہوئی تھیں، اور جب دیکھو ہوتی ہی رہتی ہیں۔ کشمیر میں تو سابق وزراء اعلی جب دیکھو تو گھروں میں نظر بند یا پھر حراست لیے جاتے رہتے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک ہدف بنا کر قتل کرنے کی بات ہے تو اس میں بھی مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن مودی حکومت چونکہ کشمیری پنڈتوں کو دوبارہ بسانے کی بات کر رہی ہے تو بدنامی کے ڈر سے بچنے کے لیے یہ ہنگامہ ہو رہا ہے،’’یہ حکومت کام کے بجائے پروپیگنڈے پر زیادہ یقین کرتی ہے۔ کشمیری پنڈتوں کے لیے بھی اعلانات بہت ہوئے ہیں تاہم زمینی سطح پر اس کی تیاری نہیں کی گئی تویہ سب اسی کا حصہ ہے۔‘‘

کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی

گزشتہ ہفتے بعض کشمیری پنڈتوں کی ہلاکتوں کے بعد ایک بار پھر سے کشمیر میں آباد پنڈت برادری کے بہت سے لوگ وادی کشمیر کو چھوڑ کر جموں کی جانب نقل مکانی کرنے لگے ہیں۔ نوے کے عشرے میں کشمیری پنڈتوں کے خلاف مبینہ تشدد کے سبب کئی لاکھ پنڈت کشمیر چھوڑ کر جموں میں پناہ لی تھی۔

گزشتہ ہفتے کی ہلاکتوں کے بعد وادی میں اقلیتوں میں پریشانی اور خوف کا ماحول ہے اور ایک بار پھر سے کشمیری پنڈت اور سکھ برادریوں سے تعلق رکھنے والے کئی سرکاری ملازم اور اساتذہ جموں واپس لوٹ رہے ہیں جبکہ بہت سے چاہتے ہیں کہ انہیں کسی اور جگہ منتقل کر دیا جائے۔

بہت سے افراد نے مقامی میڈیا سے بات چيت میں کہا کہ حکومت نے وادی کشمیر میں پنڈتوں کی دوبارہ آبادکاری کے بہت سے منصوبوں کا اعلان تو کر دیا ہے تاہم انتظامیہ انہیں سکیورٹی فراہم کرنے میں بری طرح سے ناکام رہی ہے۔

مودی حکومت نے کشمیر میں ہندوؤں کی واپسی کے لیے ایک خصوصی پیکج کا اعلان کیا تھا جس کے تحت وہاں ایسے لوگوں کو دوبارہ بسایا جا رہا ہے۔ ادھر جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے وادی میں تعینات اقلیتی برادری کے ملازمین کی واپسی کی خبروں سے انکار کیا۔

حکومتی اسکیم ’جے کے ریلیف اینڈ ریہیبیلیشن‘ کے کمشنر اشوک پنڈتا کا کہنا ہے،’’ہم نے یہ معاملہ کشمیر کے ڈویژنل کمشنروں کے ساتھ اٹھایا ہے تاکہ وادی کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات دی جا سکیں کہ وہ اپنے متعلقہ اضلاع میں سرکاری رہائش گاہوں میں رہنے والے ملازمین کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔‘‘

کشمیر میں خوف و ہراس کا ماحول

اس وقت کشمیر میں تقریبا آٹھ سو ہندو خاندان آباد ہیں اور ایسے بیشتر ہندو کشمیریوں کا کہنا ہے کہ اس وقت ڈر کا ماحول تو ہے تاہم انہیں حکومت کی مدد کے بجائے مقامی لوگوں کا تعاون درکار ہے جو انہیں مل رہا ہے۔

’کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی‘ کے صدر سنجے تیکو نے ڈی ڈبلیو سے خاص بات چیت میں کہا کہ اس وقت کشمیر میں زبردست خوف و ہراس کا ماحول ہے، ’’لیکن خوف کا ماحول سبھی برادریوں کے لیے ہے، مسلمان بھی اس وقت اپنے بچوں کو شام چھ بجے کے بعد گھر سے نکلنے نہیں دیتے ہیں۔ دکانیں بھی جو آٹھ بجے بند ہوتی تھیں وہ بھی اب چھ بجے ہی بند ہونے لگی ہیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں سنجے ٹیکو کہنے لگے،’’ہمیں حکومت سے کچھ نہیں چاہیے، ہم کشمیر میں اتنے برسوں سے کشمیری مسلمانوں کے ساتھ رہتے آئے ہیں اور ہمیں انہی کا ساتھ چاہیے، ہم اپنے ہم بھائیوں کے تعاون سے کشمیر میں امن و محبت سے رہتے آئے ہیں۔ ان کی آوازیں اور ان کا تعاون ہمیں چاہیے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم سب کشمیریوں کو مل کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آج جب کشمیری پنڈت مر رہا ہے تو سب پریشان ہیں اور ہر جانب سے فون آ رہے ہیں، یہ نہیں ہونا چاہیے، جب کوئی مسلمان بھی ہلاک ہو تو بھی اسی طرح کی فکر ہونی چاہیے۔ وہ آوازیں کم ہو گئی تھیں تاہم حالیہ واقعات کے بعد مسلمانوں نے ہمارے تحفظ کے لیے آواز اٹھائی ہیں۔‘‘

مودی حکومت نے کشمیر سے متعلق خصوصی آئینی اختیارات کو ختم کرتے ہوئے یہ دعوی کیا تھا کہ اس سے کشمیر میں علیحدگی پسندی کی تحریک پر قابو پا یا جا سکے گا اور حالات کو بہتر کرنے میں مدد ملے گے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے کشمیری بھارت سے مزید دور ہو گئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں