طالبان قیادت جو نواز شریف کے جانے اور پرویز مشرف کی آمد پر خوش ہوئی

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) 22 برس قبل جب پاکستان میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹا تو افغانستان میں اُس وقت طالبان کا دور تھا۔ اُس وقت کے طالبان کے سینیئر رہنماؤں کے مطابق نواز شریف کی حکومت نے ’مغرب کی ایما پر‘ طالبان کے خلاف بیانات دینے شروع کر دیے تھے لہذا جب طالبان قیادت کو 12 اکتوبر کو پرویز مشرف کے ’مارشل لا‘ کی خبر ملی تو ’سب خوش‘ تھے اور یہ اُمید پیدا ہوئی کہ اب پرویز مشرف پچھلی حکومت کی نسبت اُن سے اچھے تعلقات قائم کر لیں گے۔

طالبان کے بانی ملا محمد عمر کے دست راست عبدالحئی مطمئن اپنی کتاب ’ملا محمد عمر، طالبان اور افغانستان‘ میں لکھتے ہیں کہ جولائی 1999 میں طالبان پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے پابندیوں کی سختی کے بعد اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم محمد نواز شریف اور اُن کے بھائی اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی جانب سے بارہا ’افغانستان میں طالبان حکومت‘ کے خلاف بیانات دیے گئے تھے اور طالبان قیادت پاکستانی حکومت کی اس بے رُخی پر نالاں تھی۔

عبدالحئی مطمئن ’پاکستان کے ساتھ مخدوش روابط اور مشرف کا مارشل لا‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ ’جولائی 1999 سے افغانستان پر امریکی کی جانب سے یکطرفہ پابندیوں کے بعد نواز شریف کی جانب سے اس لیے طالبان پر شدید تنقید ہوئی کہ طالبان کی صفوں میں بعض ایسے شدت پسند ہیں جو پاکستان کے لیے خطرہ ہیں۔‘

عبدالحئی مطمئن پاکستانی وزیراعظم کے اس ’الزام‘ کو قبول کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’یہ کوئی نئی بات نہیں تھی اور اُن کے ساتھ اُزبک، تاجک اور چیچن عوام کے ساتھ پاکستانی مجاہدین‘ بھی تھے۔

وہ لکھتے ہیں دیگر مجاہدین کی طرح پاکستانی مجاہدین بھی جن میں اکثریت کشمیری تنظیموں کے لوگ تھے، اُن کی صفوں میں لڑتے رہے اور پاکستان کو ان سے کوئی تشویش نہیں تھی۔

اُن کے مطابق کشمیری تنظیموں کے رضاکار روس کے خلاف بھی عربوں کی طرح مجاہدین کے ساتھ شامل تھے، جن میں حزب المجاہدین، البدر اور حرکت المجاہدین کے رضاکاروں کے افغان صوبہ خوست، پکتیا اور ننگرہار سمیت کئی دوسرے صوبوں کے مجاہدین کے ساتھ تعلقات تھے۔

عبدالحئی مطمئن مزید دعویٰ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان پاکستانی جنگجووں کو نہ طالبان نے دعوت دی تھی اور نہ پاکستان نے رسمی طور پر افغانستان میں انھیں ’جہاد‘ کے لیے بھیجا تھا۔

’یہ نوجوان جہاد کے جذبے کی غرض سے طالبان کی صفوں میں شامل تھے تو اسی لیے طالبان نے بھی پاکستان کی ایما پر اُن میں اچھے اور بُرے کی کوئی تفرق نہیں کی کیونکہ اُن کے پاکستان میں جو بھی نام تھے، یہاں وہ صرف خارجی مجاہد اور مسلمان بھائی کی حیثیت سے رہ رہے تھے۔‘

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے طالبان کے خلاف سخت بیانات کے بارے میں طالبان قیادت کا یہ خیال تھا کہ ان سخت بیانات کی اصل وجہ ’مغرب کو خوش‘ کرنا ہے اور پاکستانی رضاکاروں کا اُن کی صفوں میں لڑنا کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔

قطر دفتر میں طالبان کے ایک سینیئر رہنما نے اس کتاب میں درج اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان قیادت کو نواز شریف کی حکومت سے اس لیے بھی زیادہ گلے شکوے تھے کیونکہ اُن کے بقول ’گلے شکوے اپنوں سے ہوتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان طالبان کے قریب ترین ساتھی دوست اور ہمسایہ ملک تھا اور اگر اُن کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے والے کوئی بیان دیتے تو اُن سے ہمارا گلے کا حق نہیں تھا، پاکستان سے تھا۔‘

سیاسی دفتر کے اس رہنما کے مطابق اُنھیں پہلے دن سے پاکستان کی حکومت اور پاکستانی عوام کی حمایت حاصل تھی اور پوری دنیا ایک طرف جبکہ پاکستان دوسری طرف اُن کے لیے سب سے اہم تھا تاہم اُن کے مطابق طالبان قیادت کے شکوے پاکستان سے نہیں بلکہ نوازشریف سے تھے۔

طالبان کے قطر دفتر میں ہی ایک اور رہنما نے اس بارے میں بی بی سی کو بتایا کہ اس کتاب میں لکھی گئی اکثر باتوں سے وہ اتفاق نہیں کرتے کیونکہ اُن کے بقول عبدالحئی مطمئن ملا محمد عمر کے قریبی ساتھیوں میں سے نہیں تھے بلکہ صرف اُن کے ترجمان تھے۔

طالبان سیاسی دفتر کے اس رہنما کے مطابق اُنھیں اُس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے بیانات یاد ہیں جو اکثر طالبان کے خلاف ہوتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’طالبان بڑے سادہ لوگ ہیں، وہ یہ سجمھتے تھے کہ پرویز مشرف نواز شریف سے زیادہ اچھے مسلمان اور تقویٰ دار ہوں گے، اسی لیے اُنھیں نواز شریف کے جانے اور مشرف کے آنے کی خوشی تھی۔‘

سیاسی دفتر کے اس رہنما کے مطابق اُس زمانے میں امریکی صدر بل کلنٹن پاکستان کے دورے پر آئے تو طالبان کو ایسی خبریں ملی تھیں کہ پرویز مشرف اُن کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہیں گئے اور اس وجہ سے اکثر طالبان پرویز مشرف پر فخر کرتے تھے لیکن ’پھر بعد میں پرویز مشرف نے ہمارے اور عالم اسلام کے ساتھ جو کیا وہ سب نے دیکھا۔‘

عبدالحئی مطمئن اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ ’پاکستانی کے وزیراعظم نواز شریف تو اُن کے خلاف بیانات دیتے تھے اس کے علاوہ ایک مرتبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بھی طالبان کے خلاف سخت بیان دیا، حالانکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کا کام نہیں تھا۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’ایسا لگ رہا تھا کہ مغرب کے ساتھ شہباز شریف کی دوستی نوازشریف سے بھی زیادہ تھی۔ شہباز شریف نے یہ دھمکی دی کہ ہم افغانستان کے ساتھ سرحد بند کر دیں گے۔ ایسے وقت میں جب ہم مغربی پابندیوں کے شکار تھے تو ایسے بیانات ہمارے لیے کافی باعث تشویش تھے۔‘

’جب 12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت گرائی تو وہ اس لیے خوش تھے کہ اب نواز شریف حکومت کے سخت بیانات سے جان چھوٹ جائے گی اور اُن کی مشکلات کم ہو جائیں گی۔‘

عبدالحئی مطمئن کے مطابق اُنھیں ملا محمد عمر نے اس مارشل لا کے بارے میں ایک بیان جاری کرنے کو کہا تھا۔

’میں نے جب اعلامیہ لکھا تو اُس میں ایک حد تک اس مارشل لا کو خوش آمدید کہا تھا اور پچھلی حکومت (نوازشریف کی حکومت) پر تنقید کی تھی۔‘

عبدالحئی کے مطابق جب اُنھوں نے یہ اعلامیہ جاری کرنے سے پہلے ملا محمد عمر کے ساتھ شیئر کیا تو اُنھیں بتایا گیا کہ ’اس اعلامیے کی زبان ٹھیک نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نہ پچھلی حکومت پر تنقید کریں اور نہ ہی نئی حکومت کو خوش آمدید کہیں بلکہ نیک تمنائیں، دوطرفہ تعلقات اور اسلامی اخوت اس اعلامیے کے اہم الفاظ ہوں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں