افغانستان: قندھار میں نماز جمعہ کے دوران شیعہ مسجد میں 3 خودکش دھماکے، 100 سے زائد افراد ہلاک

کابل (ڈیلی اردو/اے ایف پی/روئٹرز/ڈی ڈبلیو) افغانستان کے صوبے قندھار میں شیعہ مسجد میں نماز جمعہ کو ہونے والے تین خودکش بم دھماکوں میں تاحال 100 سے زائد افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے بتایا ہے کہ جنوبی افغان شہر قندھار کی ایک شیعہ مسجد فاطمہ میں 15 اکتوبر بروز جمعہ دوران نماز دھماکا ہوا ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق کم از کم 37 افراد ہلاک اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ مقامی سینٹرل میر واعظ ہسپتال میں بتیس لاشیں لانے کی بھی طبی اہلکاروں نے تصدیق کی ہے۔ کابل سے وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں مسجد میں ہونے والی ہلاکتوں پر رنج و دکھ کا اظہار کیا گیا ہے۔ طالبان حکومت نے مسجد میں ہونے والے دھماکوں کو خودکش حملہ قرار دیا ہے۔

مقامی حکومتی اہکاروں نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ دھماکے کی نوعیت اور وجوہات کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ اندازوں کے مطابق دھماکے کے وقت مسجد میں قریب پانچ سو افراد موجود تھے۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق دھماکے کی زد میں آنے والے کئی زخمی افراد کی حالت نازک بتائی جاتی ہے جب کہ حکام خدشہ نے اموات کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق مسجد میں موجود عینی شاہدین نے بتایا کہ جمعے کی نماز میں لگ بھگ 500 افراد شریک تھے۔

ایک مقامی صحافی نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ عینی شاہدین کے مطابق یہ دھماکہ خودکش تھا جس میں ایک حملہ آور نے خود کو مسجد کے دروازے پر دھماکے سے اڑایا جب کہ دو دیگر مسجد کے اندر چلے گئے تھے۔

طلوع نیوز افغان ٹی وی کے مطابق یہ دھماکہ قندھار شہر کے پولیس ڈسٹرکٹ ون میں جمعے کی نماز کے دوران ہوا۔ نیوز چینل کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ’عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔ تاحال سرکاری ذرائع سے کوئی مصدقہ تعداد نہیں بتائی گئی۔‘

الجزيرہ کے مطابق بھی قندھار کے شیعہ مسجد میں تین خودکش حملے کئے گئے۔

دھماکے کے بعد فوری طور پر کسی بھی گروہ کی جانب سے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔

دھماکا نماز جمعہ کے دوران

جس وقت دھماکا ہوا، اس وقت ایک بڑی تعداد میں شیعہ مسلک کے افراد عبادت میں مصروف تھے۔ قندھار کی مقامی طالبان انتطامیہ نے بھی اس دھماکے کی تصدیق کر دی ہے۔ طالبان حکومت کی وزراتِ داخلہ نے بھاری انسانی جانوں کے ضیاع کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

مقامی انتظامیہ کے مطابق ہر جمعے کو قندھار شہر کے مرکزی حصے میں واقع اس مسجد میں کثیر تعداد میں شیعہ عقیدے کے افراد نماز کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ قندھار کی سابق صوبائی کونسل کے رکن نعمت اللہ وفا نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ دھماکا امام بارگاہ کی مسجد میں ہوا۔

تین خودکش دھماکے

عینی شاہدین کے مطابق دھماکوں کے بعد مسجد سے دھوئیں اور گرد و غبار کو اڑتے دیکھا گیا۔ ان کے مطابق ایک دھماکا مسجد کے مرکزی دروازے پر، دوسرا مسجد کے جنوبی حصے میں جہاں وضو کیا جا تا ہے اور تیسرا مرکزی ہال میں، جہاں نماز ادا کی جا رہی تھی، ہوا۔ شیعہ مسجد کے فیس بک پیج پر لوگوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ خون کا عطیہ دیں کیونکہ اس وقت شدید زخمی افراد کو خون کی اشد ضرورت ہے۔

دھماکے کے کچھ ہی دیر بعد شہری انتظامیہ اور سکیورٹی حکام مسجد کے باہر پہنچ گئے تھے۔ طالبان حکومت کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان قاری سعید خوستی نے میڈیا کو بتایا کہ انتظامی و سکیورٹی حکام دھماکے کی تفصیلات اور اس سے جڑی اشیا و معلومات جمع کرنے میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ ترجمان نے بتایا کہ اسلامی امارت کے سکیورٹی اہلکاروں نے مسجد کو اپنے حصار میں لے لیا ہے۔

افغانستان میں اہلِ تشیع اقلیت پر حملوں کے بعد یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سے مختلف لسانی اور مذہبی فرقوں میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔

داعش پھر ذمہ دار ہو سکتی ہے

اس دھماکے کی ذمہ داری کسی گروپ نے ابھی تک قبول نہیں کی لیکں نظریں جہادی دہشت گرد گروپ دولتِ اسلامیہ (داعش) کی جانب ہیں۔ اسے دہشت پسند گروپ نے چند روز قبل قندوز کی شیعہ مسجد میں کیے گئے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ قندوز حملے میں چالیس سے زائد انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں