داعش نے قندھار کی شیعہ مسجد میں خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرلی

کابل (ڈیلی اردو) عالمی دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) نے افغانستان کے مغربی شہر قندھار میں گزشتہ روز نماز جمعہ کے دوران ہوئے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرلی جہاں 100 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

امریکی خبر رساں ایجنسی اے ایف کی رپورٹ کے مطابق داعش نے اپنے ٹیلیگرام چینل میں جاری بیان میں کہا کہ داعش کے دو خودکش حملہ آوروں نے طالبان کے مرکزی علاقے قندھار کے مختلف علاقوں میں مساجد میں الگ الگ حملے کیے۔

برطانوی تحقیقی ادارے ایکس ٹریس کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز کا حملہ قندھار میں داعش کا پہلا حملہ ہے اور جب سےطالبان نے کابل پر قبضہ کیا ہے اس وقت اب تک افغانستان میں ان کا یہ چوتھا حملہ ہے۔

ایکس ٹریس کے محقق عبدالسعید کا کہنا تھا کہ یہ حملہ طالبان کے لیے چیلنج ہے کیونکہ وہ پورے ملک میں اپنے قبضے کا دعویٰ کر رہے ہیں، لیکن اگر طالبان قندھار کو داعش سے محفوظ نہیں رکھ سکتے تو وہ باقی ملک کو کیسے تحفظ دے سکتے ہیں۔

خیال رہے گزشتہ روز قندھار میں ایک امام بارگاہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران بم دھماکے کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

طالبان عہدیداروں نے بتایا تھا کہ شمالی افغانستان کے شہر قندھار میں نماز جمعہ کے دوران خودکش حملہ کیا گیا۔

قندھار کے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر حافظ عبداللہی عباس نے کہا کہ ‘ہسپتال سے آنے والی اطلاعات کے مطابق آج مسجد میں ہونے والے دھماکے میں 60 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں’۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ امارات اسلامی اس واقعے کی مذمت کرتی ہے اور اس کو بہت بڑا جرم تصور کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ذمہ داروں کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔

سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز اور تصاویر میں بہت سے افراد کو امام بارگاہ کے فرش پر دیکھا جاسکتا ہے جو شدید زخمی ہوئے تھے۔

عینی شاہد نے بتایا تھا کہ انہوں نے تین دھماکے سنے جن میں سے پہلا امام بارگاہ کے مرکزی دروازے، دوسرا جنوبی دروازے جبکہ تیسرا وضو خانے میں ہوا۔

صوبائی کونسل کے سابق رکن نعمت اللہ وفا نے کہا تھا کہ دھماکا امام بارگاہ میں ہوا جس کے نتیجے میں بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘اقوام متحدہ مذہبی ادارے اور عبادت گزاروں پر حملے کے حالیہ واقعے کی مذمت کرتی ہے، ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہیے’۔

قبل ازیں گزشتہ جمعہ کو افغانستان کے شمال مشرقی صوبے قندوز کی شیعہ مسجد میں نماز کی ادائیگی کے دوران دھماکے کے نتیجے میں 150 افراد ہلاک اور 200 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔

اس دھماکے میں بھی اہلِ تشیع برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

داعش کی جانب سے افغانستان میں طالبان کے خلاف سخت مؤقف اپناتے ہوئے کئی حملے کیے جاچکے ہیں اور ان کے علاوہ افغانستان میں دیگر برادریوں اور مکتب فکر کے افراد کو بھی نشانہ بنا یا گیا ہے۔

اس سے قبل 3 اکتوبر کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مسجد کے باہر دھماکے کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

بم دھماکا کابل کی عیدگاہ مسجد کے دروازے کے قریب ہوا تھا جہاں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی والدہ کا تعزیتی اجلاس ہو رہا تھا۔

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ طالبان نے 15 اگست کو کابل کا کنٹرول سنبھالا تھا جس کے بعد سے انہیں اندرونی طور پر داعش کے خطرے کا سامنا ہے۔

تاہم حال ہی میں ایک بیان میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ امارت اسلامیہ ان کا تعاقب کررہی ہے اور ہماری افواج داعش کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ ہفتے میں ہم نے داعش سے تعلق رکھنے والے کئی لوگوں کو گرفتار کیا اور ان کے کئی محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کر دیا ہے جبکہ ان کے کئی حملوں کو بے اثر کر دیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں