میانمار میں 5 ہزار سے زائد قیدیوں کی رہائی کا اعلان

ینگون (ڈیلی اردو/اے ایف پی/روئٹرز) میانمار میں سویلین حکومت کی برطرفی پر فوجی جنتا کے خلاف ملک گیر مظاہروں میں حصہ لینے والے ہزاروں افراد جیلوں میں بند ہیں۔ حکمراں فوجی جنتا کے سربراہ نے پانچ ہزار سے زائد سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا پیر کے روز اعلان کیا۔

میانمار کی حکمراں فوجی جنتا کے سربراہ من آنگ ہلینگ نے پیر 18 اکتوبر کو اعلان کیا کہ سویلین حکومت کی برطرفی کے بعد ملک میں ہونے والے مظاہروں کے دوران گرفتار کیے گئے سیاسی قیدیوں میں سے مجموعی طورپر 5636 افراد کو ”انسانی بنیادوں” پر رہا کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان مقید افراد کو 20 اکتوبر کو ملکی تہوار ‘تھاڑینگ یوت‘ کے موقع پر رہا کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ تین روز قبل جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم (آسیان) نے من آنگ ہلینگ کو 26 سے 28 اکتوبر تک منعقد ہونے والی اپنی سربراہی کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔

فوجی جنتا کے سربراہ کا ‘عہد’

من آنگ ہلینگ نے یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت کی قیادت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے میانمار میں جمہوریت کو بحال کرنے کا اپنا پانچ مرحلے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ملک میں امن اور جمہوریت کے اپنے عہد پر قائم ہیں۔

انہوں نے قومی اتحاد حکومت (این یو جی) اور مسلح نسلی ”دہشت گرد گروپوں” پر میانمار کے بحران کو حل کرنے میں آسیان کی مدد کرنے کا الزام لگایا۔

من آنگ ہلینگ کا کہنا تھا کہ وہ صرف مسئلے کو حل کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ انہوں نے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم کے فیصلے کے تناظر میں مزید کہا،”آسیان کو ان کی جنتا پر الزام تراشی کرنے کے بجائے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔”

بغاوت مخالف جماعتوں کی نمائندگی کرنے والی جماعت این یو جی نے حکومتی فورسز کے خلاف ملک گیر احتجاج کی حمایت کی تھی اور فوجی جنتا کے سربراہ کو آسیان سربراہی کانفرنس میں مدعو نہ کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا۔

این یو جی کے ترجمان ڈاکٹر ساسا کا تاہم کہنا تھا،”آسیان کو ہمیں میانمار کے باضابطہ نمائندے کے طور پر تسلیم کرنا چاہئے۔”

میانمار کی فوجی جنتا کے ترجمان زاو من ٹن نے آسیان سربراہی کانفرنس میں فوجی جنتا کے سربراہ من آنگ ہلینگ کو شرکت کی دعوت نہ دینے کے لیے امریکا سے لے کر یورپی یونین تک کو میانمار کے معاملات میں ”غیرملکی مداخلت” کے زمرے میں ٹھہرایا ہے۔

آسیان رہنماوں نے فوجی جنتا کے سربراہ کے بجائے کسی ”غیر سیاسی نمائندے” کو ملک کی نمائندگی کرنے کے لیے مدعو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آسیان کا کہنا ہے کہ وہ میانمار میں ”جمہوریت کی واپسی” کی خواہاں ہے۔

سوچی کے مقدمات

ملک کی سابق رہنما آنگ سان سوچی کے وکیل کا کہنا تھاکہ مقدمے کی سماعت کے دوران انہیں بولنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔

فوجی جنتا نے سوچی پر بدعنوانی سمیت متعدد الزامات عائد کر رکھے ہیں، حالانکہ خاتون سیاسی رہنما کے حامیوں اور آزاد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فوج اقتدار پر اپنی گرفت مضبو ط کرنے کے لیے ایسے الزامات عائد کر رہی ہے۔

دریں اثنا اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر میشیل بیچلیٹ کا کہنا ہے کہ بغاوت کے بعد سے میانمار کو تباہ کن پیش رفت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عدم سلامتی کے خدشات لاحق ہوگئے ہیں، جن کے اس خطے پر وسیع اثرات مرتب ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں