سیالکوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں گرفتار اسٹیفن مسیح کی رہائی کا مطالبہ

نیو یارک (ڈیلی اردو/وی او اے) اقوام متحدہ سے منسلک انسانی حقوق کے ماہرین نے جمعرات کے روز پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ توہین مذہب کے مبینہ الزام پر دو سال سے گرفتار ایک مسیحی شخص اسٹیفن مسیح کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ اسٹیفن مسیح کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے، اور ان کے خلاف دو سال بعد بھی مقدمے کی کارروائی شروع نہیں ہو سکی ہے۔

اسٹیفن مسیح کا تعلق سیالکوٹ سے ہے، جہاں انھیں گرفتار کیا گیا تھا۔

جمعرات کو جاری ہونے والے ایک بیان میں عالمی ادارے سے وابستہ ان ماہرین نے کہا ہے کہ انھیں اس بات پر تشویش ہے کہ ایک شخص جس کا دماغی توازن ٹھیک نہیں، اسے زیر حراست رکھا جا رہا ہے۔

اسٹیفن مسیح کو مارچ 2019ء میں پیغمبر اسلام کی مبینہ بےحرمتی کے الزام پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے اہل خانہ نے لگائےجانے والے الزامات کو مسترد کیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ اسٹیفن مسیح پر توہین مذہب کا الزام لگنے سے پہلے سیالکوٹ میں ایک ہمسائے کے ساتھ ان کے تعلقات بگڑ گئے تھے، جہاں مبینہ طور پر اکثریتی آبادی سے تعلق رکھنے والے ایک ہجوم نے ان پر حملہ کیا اور مبینہ طور پر ان پر توہین مذہب کا الزام لگایا۔ ہجوم نے مبینہ طور پر اسٹیفن مسیح کے گھر کو بھی نذر آتش کیا تھا۔

عدالت نے اس سال اگست میں مسیح کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ ایک اور عدالت آج جمعے کے روز اسٹیفن کی جانب سے دائر کردہ درخواست ضمانت کی سماعت کرنے والی ہے۔ توہین مذہب کے قانون کے تحت پاکستان میں مجرم کو موت کی سزا ہو سکتی ہے۔

انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انھیں اسٹیفن کی طبی دیکھ بھال نہ کیے جانے کے معاملے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اور الزام عائد کیا ہے کہ مقدمے کی کارروائی چلانے سے پہلے ملزم کی دماغی صحت اور جسمانی کیفیت جانچنے کے لئے طبی معائنہ کرنے میں مسلسل تاخیر سے کام لیا جا رہا ہے۔ جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسٹیفن مسیح کو جیل کی کوٹھڑی میں دیگر مسلمان قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا ہے، جس سے ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
بیان میں اقوام متحدہ کے ماہرین کے بقول، ”یہ امر قابل تشویش ہے کہ اسٹیفن مسیح کو توہین مذہب کے الزام میں زیر حراست رکھا جا رہا ہے، جنھیں عدالت اور قیدخانے کے حکام درکار طبی امداد فراہم نہیں کر رہے ہیں، جنہیں ان کی نفسیاتی، سماجی اور صحت کی حالت کا بخوبی علم ہے۔”

مذہبی بے حرمتی کے قوانین کے معاملے پر پاکستان کو بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔ حقوق انسانی کے گروپوں نے دعویٰ کیا ہے اکثر و بیشتر پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کے مبینہ الزامات لگا کر اقلیتوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور ان قوانین کا سہارا لے کر مبینہ طور پر ان سے ذاتی دشمنیاں نمٹائی جاتی ہیں۔

عالمی ادارے کے ماہرین کی جانب سے یہ بیان ایسے میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں مذہب کے تحفظ کے نام پر چند سال قبل وجود میں آنے والی جماعت تحریک لبیک کے اولین رہنما مرحوم خادم رضوی کے صاحبزادے سعد رضوی کی رہائی کے مطالبے کی حمایت میں لاہور میں ہزاروں افراد جمع ہیں اور انہوں نے اسلام آباد تک مارچ کا اعلان کیا ہے۔ سعد رضوی کو اپریل کے وسط میں گرفتار کیا گیا تھا جب فرانس میں پیغمبر اسلام کی شان میں مبینہ گستاخی کے معاملے پر احتجاج کیا جا رہا تھا۔ رضوی کی جماعت حالیہ برسوں کے دوران توہین مذہب کے قوانین کی حمایت میں ریلیاں نکالتی رہی ہے۔

انسانی حقوق کے عالمی ادارے بین الاقوامی ضابطوں کے پیش نظر پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کا جائزہ لے کر انھیں منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ مذہبی منافرت کو شہ دینے والے مبینہ امتیازی اور شدت پسندانہ سلوک کے انسداد کے لیے ضروری اقدامات کئے جائیں۔

سال 2011ء میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اسلام آباد میں اپنے ہی محافظ کا ہاتھوں گولیاں لگنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔ ان پر مسیحی خاتون، عاصیہ بی بی کے حق میں کلمات ادا کرنے کا الزام تھا۔ عاصیہ پر توہین مذہب کا مقدمہ چلایا گیا جو آٹھ سال تک چلتا رہا، جس کے بعد انھیں باعزت بری کر دیا گیا۔ مبینہ طور پر انھیں دھمکیاں موصول ہوئی تھیں، جس کے بعد وہ پاکستان چھوڑ کر کینیڈا چلی گئی تھیں۔
یاد رہے کہ ​پاکستان میں توہین مذہب کے قانون پر بات کرنا ایک حساس معاملہ ہے۔ حکومت پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ توہین مذہب کے قانون کا ہونا ضروری ہے، چونکہ، بقول اس کے، اس میں درج شقوں کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ کوئی شہری جان بوجھ کر پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی نہ کرے، جس کے باعث معاشرے میں اشتعال بھڑکنے اور ہنگامہ آرائی کا اندیشہ لاحق ہو سکتا ہے، جس سے احتراز لازم ہے۔ اس لئے، حکومت کی طرف سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ قوانین کی فوری منسوخی ممکن نہیں۔ اور پھر یہ کہ توہین مذہب کا قانون پاکستانی شہریوں پر ہی لاگو نہیں ہوتا، اس میں دیگر ادیان اور مذاہب کی قابل احترام ہستیوں کے خلاف لب کشائی سے بھی منع کیا گیا ہے۔

جہاں سماجی کارکنان اور انسانی حقوق کے ماہرین توہین مذہب کے قانون پر نظر ثانی کا مطالبہ کرتے ہیں، وہیں پاکستان میں بہت سے حلقے اس قانون میں کسی طرح کی ترمیم کے خلاف ہیں۔

ادھر، اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ گزشتہ سال ملک بھر میں توہین مذہب کے 586 کیس رجسٹر ہوئے۔ ماہرین کا کہنا کہ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال نہ ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں