پارا چنار: طوری اور منگل قبائل میں تصادم، 10 افراد ہلاک، 9 زخمی، 6 لاپتا

پاراچنار (رپورٹ: احمد طوری) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں پاک-افغان سرحد کے قریب طوری اور منگل قبائل کے مابین جنگلات کے تنازعہ پر مسلح تصادم شدت اختیار کرگیا ہے، ہفتہ 23 اکتوبر 2021 کے صبح ساڑھے دس بجے سے جاری اس لڑائی میں فریقین ایک دوسرے کے خلاف بھاری ہتھیار استعمال کررہے ہیں اور آبادی بمباری کے زد میں آرہی ہے۔ مسلح جھڑپوں میں فریقین کے 10 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوچکے ہیں۔ جبکہ طوری قبائل کے 6 افراد لاپتہ ہوئے ہیں، خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ چھ افراد پہلے گھیرے کے دوران ہلاک و زخمی ہوئے جن کی لاشیں ابھی تک نہیں ملی ہیں۔ جب تک یہ لاشیں نہیں ملتی مسلح تصادم روکنا مشکل ہے کیونکہ دونوں قبائل دشوار گزار پہاڑوں میں مورچہ زن ہیں۔

ریاض چمکنی کے مطابق ہلاک افراد میں گاؤں گیدو کے سینجک، نور الحق، حضرت محمد، خان ولی، سید نظیر اور محمد سخی کا تعلق منگل قبائل سے ہے جبکہ گاؤں پیواڑ کے سید علی طوری، جواد علی، رشید علی، محمد حسن طوری قبائل کے ہلاک ہوئے ہیں۔ جبکہ زخمیوں میں ولایت طوری، ضامین طوری، محمد عالم طوری، صوبیدار ناصر طوری، محمد یونس منگل، رحیم شاہ منگل اور دیگر تین افراد شامل ہیں۔

کرم بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ایڈوکیٹ محمود علی نے بتایا کہ 23 اکتوبر علی الصبح انہوں نے خود سیکیورٹی ادارے کے اہلکاروں کو ٹیلی فون کال کرکے حالات کے سنگینی کے متعلق آگاہ کیا مگر بےحسی سے تھریٹ الرٹ کو نظر انداز کیا گیا۔

محمود طوری کے مطابق گاؤں پیواڑ کے طوری قبائل کے افراد اپنے جنگل سے لکڑیاں لارہے تھے کہ اس دوران منگل قبائل کے افراد نے گھیراؤ کرکے ان پر فائرنگ کھول دی جس کی وجہ سے علاقے میں ایک بار پھر مصخسلح تصادم شروع ہوگیا ہے، جو اب شدت اختیار کرگیا ہے۔

ضلع کرم کے ڈی پی او طاہر اقبال نے بتایا کہ فریقین کے مابین فائرنگ جنگل سے لکڑیاں کاٹنے پر ہوئی پولیس اور دیگر سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی ہے اور فریقین کے مابین فائر بندی کی کوشیش جاری ہیں اور فریقین سے مورچے خالی کرنے کی کوشیش کررہے ہیں۔

یاد رہے! پیواڑ اور گیدو گاؤں کے طوری منگل قبائل کے درمیان پہاڑوں اور پانی کے تنازعے عرصہ دراز سے چلتے آ رہے ہیں جس سے کئی بار پورا علاقہ میدان جنگ بنتا آرہا ہے۔

مہدی حسین کے مطابق گزشتہ ساٹھ سالوں سے منگل قبائل چھوٹے چھوٹے تنازعات کے بہانے شلوزان اور پیواڑ کے بنگش طوری قبائل پر حملے کر رہے ہیں جس میں طوری بنگش قبائل کے سینکڑوں افراد کو اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بنا کر قتل کر چکے ہیں اور سینکڑوں کو زخمی کرکے معذور بنا چکے ہیں۔

تاریخی طور پر احسان فراموش منگل قبائل کو افغانستان کے امیر عبد الرحمن نے ان کے کرتوتوں اور تخریب کاریوں کی وجہ سے ان کی سرکوبی کی تھی اور یہ جانیں بچا کر پیواڑ اور شلوزان تنگی میں بے سرو سامانی کے حالت میں آگئے تھے، وادئ کرم کے طوری بنگش قبائل نے پختونوالی، قبائلی روایات اور انسانی ہمدردی کے بناء پر ان کو پناہ دی تھی اور آج یہ ٹمبر مافیا نہ صرف بنگش طوری قبائل کے زمینوں پر آباد ہیں بلکہ مزید پیواڑ طوری قبائل کے پہاڑوں اور جنگلات پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کر رہے۔ اب وقت آ پہنچا ہے کہ ضلع کے تمام تنازعات کاغذات مال اور سیٹلمنٹ ریکارڈ کے مطابق حل کئے جائیں۔ کیونکہ ضلع کرم واحد قبائلی ضلع ہے جس کے پہاڑ، پانی اور اراضی کی 1908 اور 1943 میں دو دفعہ سیٹلمنٹ ہوچکی ہے اور تقریباً پورے ضلع کی اراضی قوموں کے درمیان تقسیم ہوچکی ہیں۔

منگل قبائل جو طوری قبائل نے مزار عین (ہمسایہ) کے طور پر آباد کئے تھے اب علاقے کی مالک بننے کی کوشش کررہے ہیں، حالانکہ انکے ملکیتی حقوق نہ ہونے کے برابر ہیں۔

صاحبان عقل و خرد عرصہ دراز سے زور دے رہے ہیں کہ علاقے کے اراضی کے مسائل کا واحد حل کاغذات مال کے مطابق محکمہ مال کے فیصلے کرنے میں ہیں جبکہ جرگوں کے ذریعے وقتی طور پر فیصلے کرنے کے نتیجے میں اسی طرح جنگ و جدل ہوتی رہے گی۔

گاؤں پیواڑ میں تاریخی علی منگلہ قلعہ میں ایف سی اور پاک فوج کے دستے تعینات رہتے ہیں مگر قبائلی تصادم کی وجہ سے وہ اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں، جبکہ جنگ روکنا پولیس اور لیویز کے بس میں نہیں، لہذا قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عوام کے جان و مال کی تحفظ کے ضامن ادارے ابھی تک جنگ روکنے میں ناکام رہے ہیں۔

مشران قوم، پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں نے محاذ جنگ تک پہنچنے کی کوشش کی مگر گیدو گاؤں کے منگل قبائل نے ان پر بھی فائرنگ کھول دی جس سے پیواڑ قوم کے مشر ریٹائرڈ صوبیدار ناصر حسین شدید زخمی ہوگئے جو پشاور منتقل کردیئے گئے، اور پاک و فوج، مشران قوم اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہلکار واپس ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں