تحریک لبیک پاکستان کا لانگ مارچ: مذہبی لوگوں سے ٹکراؤ نہیں ہونا چاہیے، مقدمات واپس ہونگے، وزیر داخلہ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیم تحریکِ لبیک پاکستان سے مذاکرات کامیاب رہے ہیں جس کے بعد ’لانگ مارچ‘ کے شرکا فی الحال اسلام آباد کا رخ نہیں کریں گے اور منگل تک مریدکے میں ہی رکیں گے۔

شیخ رشید نے یہ بات تحریکِ لبیک کی قیادت سے مذاکرات کے بعد اتوار کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرس میں کہی۔

فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے پر عملدرآمد اور کالعدم تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کے مطالبات پر جمعے کو شروع ہونے والے لانگ مارچ کو لاہور میں روکنے کی کوششیں ناکام رہی تھیں اور یہ سنیچر کی شب ضلع گوجرانوالہ میں مریدکے کے علاقے میں پہنچا تھا۔

پنجاب پولیس نے ابتدا میں لاہور اور پھر ضلع شیخوپورہ میں اس قافلے کو روکنے کی متعدد بار کوشش کی تاہم اسے ناکامی کا سامنا رکنا پڑا۔ تاہم تحریک لبیک کے ذرائع نے کہا ہے کہ کالا شاہ کاکو سے نکلنے کے بعد مریدکے تک انھیں پولیس کی جانب سے کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہوا۔

ادھر تحریکِ لبیک کی شوریٰ نے کہا ہے کہ حکومت کو منگل کی شام تک کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ تنظیم کے مطالبات پورے کرے، ’غیرقانونی مقدمات‘ ختم کرے اور فورتھ شیڈول پر نظرِ ثانی کرے‘۔

شوریٰ کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ جب تنظیم کے امیر سعد رضوی رہائی کے بعد شوریٰ کے دیگر ارکان سمیت لانگ مارچ کے شرکا کے سامنے آ کر مطالبات پورے ہونے کا اعلان کریں گے تبھی مارچ ختم ہو گا۔

واضح رہے کہ اس لانگ مارچ کے شرکا اور پولیس کے درمیان جمعے کی شام سے شروع ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم دو پولیس اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ تحریکِ لبیک کے ترجمان کی جانب سے بھی درجنوں کارکنوں کے زخمی اور متعدد کے ہلاک ہونے کا دعویٰ سامنے آیا ہے تاہم وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس اس بارے میں کوئی مصدقہ معلومات نہیں۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ قافلے کے شرکا کی جانب سے شدید پتھراؤ سے ایک ڈی ایس پی اور دو ایس ایچ اوز سمیت 50 سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔

اس قافلے کے لاہور سے نکلنے کے بعد جہاں لاہور میں معطل کی گئی انٹرنیٹ سروس بحال کر دی گئی تھی تاہم حکام نے گوجرانوالہ شہر کے علاوہ مریدکے، کامونکی، وزیرآباد اور ضلع گجرات میں انٹرنیٹ سروس معطل کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

’ریاست کا کام ڈنڈا چلانا نہیں ہے‘

تحریکِ لبیک کے وفد سے بات چیت کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ حکومتی وفد نے ان سے آٹھ گھنٹے تک مذاکرات کیے جبکہ خود انھوں نے سعد رضوی سے ون ٹو ون ملاقات بھی کی۔

وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ منگل کی شام اور بدھ تک لانگ مارچ کے شرکا مریدکے میں جہاں موجود ہیں وہیں رکے رہیں گے جبکہ بند راستے کھول دیے جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’کوشش ہو گی کہ جب تک مسائل حل ہو جائیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران منگل اور بدھ تک تحریکِ لبیک کے کارکنوں اور رہنماؤں کے خلاف درج مقدمات واپس لیے جائیں گے جبکہ شیڈول فور کو بھی دیکھا جائے گا اور اس سلسلے میں پیر کو ٹی ایل پی کے لوگ وزارت داخلہ آئیں گے اور کوشش ہو گی کہ جلد از جلد تمام مسائل کو حل کیا جائے۔

فرانسیسی سفیر کی بےدخلی کے مطالبے پر شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اس وقت فرانس کا سفیر پاکستان میں نہیں ہے بلکہ ناظم الامور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اسمبلی میں اس معاملے کو لے کر جائیں گے۔ سپیکر سے اس کمیٹی کی تشکیل سے متعلق بات کریں گے تا کہ یہ کام جلد از جلد ہو سکے۔‘

خیال رہے کہ تحریک لبیک کی قیادت حکومتی مذاکراتی ٹیم سے فرانسیسی سفیر کے معاملے پر کیے گئے معاہدے پر عمل کرنے پر مصِر ہے اور اس تنظیم کا اپریل میں ہونے والے احتجاجی مظاہرہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی جانب سے فرانس کے سفیر کی ملک بدری پر بحث کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کے فیصلے کے بعد ختم کیا گیا تھا۔

شیخ رشید نے کہا کہ ’اصل بات یہی ہے کہ مذہبی لوگوں سے ٹکراؤ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔جس ملک میں عمران خان نے ختم نبوت کے سپاہی کو وزیر داخلہ بنایا ہو تو وہاں اور کیا بات کریں۔۔ریاست کا کام ڈنڈا چلانا نہیں ہے اور حکومت کا کام یہ ہے کہ وہ لچک رکھے۔‘

ان کے مطابق حکومت کا کام جوڈو کراٹے کھیلنا نہیں ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کو رہا کرنے کے معاملے پر بھی کام ہو رہا ہے۔

ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کو انصاف کیسے دلائیں گے؟

وزیر داخلہ شیخ رشید سے جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ ٹی ایل پی کے ہاتھوں جو پولیس اہلکار مارے گئے ہیں انھیں انصاف کیسے ملے گا، جس پر شیخ رشید نے کہا کہ ’دو یا تین لوگ ہمارے شہید ہوئے ہیں۔ باتیں دو ہیں: جھگڑا فساد بڑھائیں یا اس کو کنٹرول کریں۔‘ ان کے مطابق ’سیاستدان کا کام یہ ہے کہ درمیانی راستہ نکالیں، بدھ کے روز وہ اپنے اپنے گھر کو جائیں اور ان کے مطالبات کو ہم سنجیدہ لیں۔

ٹی ایل پی کے ہلاک والوں کی تعداد سے متعلق سوال پر وزیر داخلہ نے کہ ’ہمارے پاس کوئی اطلاعات نہیں ہیں، اگر وہ دعویٰ کررہے ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ ان کے مطابق ٹی ایل پی کا پنجاب میں تیسرا بڑا ووٹ بینک ہے۔ یہ ایک سیاسی جماعت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں شیخ رشید نے کہا کہ ’ہم نے ان کو کالعدم نہیں کیا ہوا ہے۔ انتخابات وہ ہر جگہ اپنے انتخابی نشان پر لڑ رہے ہیں۔ ہم سپریم کورٹ کی طرف نہیں گئے ہیں۔ واضح رہے کہ جب حکومت کسی جماعت کو کالعدم قرار دیتی ہے تو پھر اس کے سپریم کورٹ کے ذریعے ایسی جماعت کو تحلیل کرنے کے لیے رجوع کرنا ہوتا ہے۔

جب شیخ رشید سے پوچھا گیا کہ پھر ہم ٹی ایل پی کو کالعدم کیوں قرار دیتے ہیں، جس پر انھوں نے کہا ہم نے کالعدم کیا ہوا ہے اس وجہ سے آپ نے کالعدم لکھا ہوا ہے۔

کنٹینر ہٹانے کا حکم

وزیرِ داخلہ نے اسلام آباد اور راولپنڈی کی انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ وہ شہر کی سڑکوں پر لگائے گئے کنٹینر فی الحال ایک طرف کر دیں تاکہ لوگوں کو آمدورفت میں مشکل نہ ہو۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ جی ٹی روڈ پر لگائے گئے کنٹینر فی الحال اپنی جگہ پر موجود رہنے چاہییں کیونکہ مارچ کے شرکا ابھی مریدکے میں موجود ہیں۔

خیال رہے کہ لانگ مارچ کی آمد کے خدشے کے پیشِ نظر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد کے علاقے کو کنٹینرز لگا کر مکمل سیل کر دیا گیا تھا اور راولپنڈی کی اہم شاہراہ مری روڈ پر بھی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھیں۔

اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر گجرات کے قریب مرکزی شاہراہ کو کھود دیے جانے کی ویڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں۔

سعد رضوی کی رہائی کا معاملہ

پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ سعد رضوی کی نظر بندی کا جائزہ لینے والے فیڈرل ریویو بورڈ کا اجلاس امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے سعد رضوی کی نظر بندی میں توسیع سمجھی جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ وفاقی ریویو بورڈ کا اجلاس دو ہفتے بعد ہوگا اس بورڈ میں سپریم کورٹ کے جج مقبول باقر اور لاہور ہائی کورٹ کی جج عائشہ ملک بھی شامل ہیں۔

احمد اویس نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت چاہے بھی تو وہ سعد رضوی کو رہا نہیں کر سکتیں کیونکہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا حکم واضح ہے۔

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سعد رضوی کی رہائی سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سعد رضوی پر قتل سمیت دیگر سنگین الزامات ہیں۔ پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ وہ تحریک لبیک کی قیادت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں تو شامل نہیں تھے تاہم انھوں نے سعد رضوی کے خلاف درج مقدمات اور عدالتی فیصلوں کی روشنی میں اپنی رائے پنجاب حکومت کو دے دی ہے۔

سعد رضوی کی گرفتاری کا پس منظر

خیال رہے کہ پیغمبرِ اسلام کے گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر فرانسیسی سفیر کو 20 اپریل تک ملک بدر نہ کیے جانے کی صورت میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی دھمکی دینے والے تحریکِ لبیک کے امیر سعد رضوی کو اپریل کے وسط میں لاہور پولیس نے حراست میں لیا تھا اور وہ تاحال نظربند ہیں۔

سعد رضوی پر الزام تھا کہ انھوں نے اپنی جماعت کے کارکنان کو حکومت کے خلاف مظاہروں پر اکسایا جس کے دوران پرتشدد کارروائیوں میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔

سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد تحریکِ لبیک کی جانب سے ملک کے متعدد شہروں میں پرتشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس کے دوران کم از کم چار پولیس اہلکار ہلاک جبکہ سینکڑوں اہلکار اور کارکن زخمی ہوئے تھے۔

حکومت نے 16 نومبر 2020 کو اسلام آباد میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کے ساتھ دھرنا دینے والی تحریک لبیک پاکستان کے سابق سربراہ خادم حسین رضوی سے چار نکاتی معاہدہ کیا تھا جس کے تحت حکومت کو دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمان سے قانون سازی کے بعد فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنا تھا۔

اس معاہدے پر عمل نہ ہونے کے بعد فروری 2021 میں مذکورہ جماعت اور حکومت کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا جس کے تحت حکومت کو 20 اپریل تک فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے وعدے پر عمل کرنے کی مہلت دی گئی تھی۔

سعد رضوی کون ہیں؟

خادم رضوی کی وفات کے بعد ان کی جماعت کی 18 رکنی شوریٰ نے گذشتہ برس ان کے بیٹے سعد رضوی کو تحریک لبیک کا نیا سربراہ مقرر کیا جس کا اعلان جماعت کے مرکزی نائب امیر سید ظہیر الحسن شاہ نے جنازے کے موقع پر کیا تھا۔

لاہور میں خادم رضوی کے جنازے کے موقع پر ان کے بیٹے سعد رضوی نے خطاب میں اپنے والد کا مشن جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔

سعد رضوی لاہور میں اپنے والد کے مدرسہ جامعہ ابوذر غفاری میں درس نظامی کے طالبعلم رہے۔ درس نظامی ایم اے کے برابر مدرسے کی تعلیم کو کہا جاتا ہے۔

ان کے قریبی دوستوں کے مطابق سعد کا کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات سے گہرا رابطہ ہے۔

وہ شاعری سے خصوصی شغف رکھتے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ وہ جدید دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے بھی خوب واقف ہیں اور فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنے ذاتی اکاؤنٹس چلاتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں